Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا رِسَالَةَ : پیغام رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُحِبُّوْنَ : تم پسند نہیں کرتے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
پھر صالح الٹا پھرا ان سے85 اور بولا اے میری قوم میں پہنچا چکا تم کو پیغام اپنے رب کا اور خیرخواہی کی تمہاری لیکن تم کو محبت نہیں خیرخواہوں سے
85: جب قوم ہلاک ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نہایت حسرت و یاس کے ساتھ اپنی قوم سے یوں فرماتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اے میری قوم ! میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم کو پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کردیا مگر افسوس کہ تم خیر خواہی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں حرف نداء اور ضمائر خطاب سے تباہ و برباد شدہ قوم سے خطاب کرنا اور ان کو سنانا مقصود نہیں بلکہ یہ نداء و خطاب محض قوم کی بد قسمتی پر اظہارِ افسوس اور تحسر کے لیے ہے۔ فتولیٰ عنھم بعد ان جریٰ علیھم ما جریٰ علی ما ھو الظاھر مغتماً متحسراً علی ما فاتھم من الایمان متحزناً علیھم (روح ج 8 ص 165) اس سے معلوم ہوا کہ حروف نداء اور ضمائر خطاب سے ہمیشہ کسی کو مخاطب کرنا اور اسے کچھ سنانا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لیے التحیات میں السلام علیکم ایھا النبی سے آنحضرت ﷺ کے حاظر وناظر ہونے پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ وہ محض دعاء ہے اس سے خطاب کرنا اور سنان مقصود ہی نہیں۔
Top