Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 23
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر عَلِمَ اللّٰهُ : جانتا اللہ فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی لَّاَسْمَعَهُمْ : تو ضرور سنادیتا ان کو وَلَوْ : اور اگر اَسْمَعَهُمْ : انہیں سنا دے لَتَوَلَّوْا : اور ضرور پھرجائیں وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اور اگر خدا ان میں نیکی (کا مادہ) دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق بخشتا۔ اور اگر (بغیر صلاحیت ہدایت کے) سماعت دیتا تو وہ منہ پھیر کر بھاگ جاتے
ولو علم اللہ فیھم خیرًا اور اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی ‘ یعنی قبول حق کی صلاحیت جانتا اور وہ اہل سعادت میں سے ہوتے اور اللہ کے اسم ہادی کا ان پر اثر پڑ سکتا۔ لا سمعھم تو ان کو سناتا ‘ یعنی اس طرح سناتا کہ وہ سمجھتے اور قبول کرلیتے۔ ولو اسمعھم لتولوا وھم معرضون اور اگر ان کو سنا بھی دیتا (اور وہ فائدہ اندوز بھی ہوجاتے اور سمجھ بھی جاتے تب بھی ایمان و تصدیق و نفع اندوزی کے بعد مرتد ہوجاتے اور) منہ پھیر کر پشت موڑ جاتے (کیونکہ اللہ کو معلوم ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں) اسلئے ظہور حق کے بعد بھی محض عناد کی وجہ سے حسب تقدیر فطری روگرداں ہوجاتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بعض لوگ اہل جنت کے کام (ساری عمر) کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ‘ اس وقت کتاب (لوح محفوظ) کا لکھا غالب آتا ہے اور وہ دوزخیوں کا کام کر کے دوزخ میں چلے جاتے ہیں الخ رواہ البخاری و مسلم فی الصحیحین عن عبد اللہ بن مسعود۔ بغوی نے لکھا ہے : بعض روایات میں آیا ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے کہتے تھے : قصی ہمارا بابرکت شیخ تھا ‘ اس کو زندہ کر دو اور وہ آپ کی نبوت کی شہادت دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس پر اللہ نے فرمایا : وَلَوْ اَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ یعنی اگر اللہ قصی کا کلام بھی ان کو سنا دے تب بھی یہ منہ پھیر کر چل دیں گے ‘ ایمان نہیں لائیں گے۔
Top