Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 23
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر عَلِمَ اللّٰهُ : جانتا اللہ فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی لَّاَسْمَعَهُمْ : تو ضرور سنادیتا ان کو وَلَوْ : اور اگر اَسْمَعَهُمْ : انہیں سنا دے لَتَوَلَّوْا : اور ضرور پھرجائیں وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کچھ بھلائی جانتا تو ان کو ضرور سنا دیتا اور اگر بدوں بھلائی انھیں سناتا تو وہ ضرور بھاگ جاتے اس لیے کہ وہ ہیں ہی اعراض کرنے والے
وَلَوعَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ ط وَلَوْ اَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُعْرِضُوْنَ ۔ (الانفال : 23) (اگرا للہ تعالیٰ ان میں کچھ بھلائی جانتا تو ان کو ضرور سنا دیتا اور اگر بدوں بھلائی انھیں سناتا تو وہ ضرور بھاگ جاتے اس لیے کہ وہ ہیں ہی اعراض کرنے والے ) سنت اللہ اس آیت کریمہ میں ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جو ذہنوں میں پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں منافقین کی جس عادت بد کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر طرح کے خیر سے محروم ہوگئے ہیں وہ ان کانہ سننا ہے یا سن کر اثر قبول نہ کرنا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے کام لے کر انھیں سننے کی طرف مائل کردے اور جو وہ سنیں ان کے دلوں میں اتاردے ؟ اس طرح سے وہ بنیادی رکاوٹ جو ان کی ہدایت کے راستے میں حائل ہے وہ دور ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کا جواب دینے کے لیے یا اس شبہ کو دور کرنے کے لیے اپنی ایک سنت اور قانون کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کو عقل اور قوت تمیز سے نوازا ہے پھر اس کی عقل کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے اور کتابیں اتاری ہیں جو ان کے سامنے حق اور باطل کو پوری طرح واضح کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حق کا حق ہونا دلائل سے ثابت کردیا جاتا ہے اور باطل کا باطل ہونا پوری طرح مبرّہن کردیا جاتا ہے جس آدمی کی عقل ہر طرح کے ٹیڑھ، الجھن، آلودگی اور جانب داری سے پاک ہے اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا ہے کہ حق مجھ سے کس بات کا تقاضا کرتا ہے۔ چناچہ اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اسے حق کا ساتھ دے کر اللہ کے نبی پر ایمان لانا ہے یا باطل کا ساتھ دے کر خیر کی قوتوں کی مخالفت کرنی ہے۔ وہ اگر حق کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حواس اور اس کی عقل میں توفیق کا چراغ جلا دیتا ہے وہ حق کی بات کو سنتابھی ہے اور سمجھتا بھی ہے۔ حق کے راستہ میں اس کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ لیکن اگر وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے باطل کا ساتھ دینا ہے اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کرنی ہے تو پروردگار اسے مہلت عمل دیتا ہے۔ اس کے نبی تبلیغ و دعوت میں تیزی پیدا کردیتے ہیں لیکن جب وہ پوری طرح اپنے بارے میں ثابت کردیتا ہے کہ اس کے اندر خیر کی ہر قوت دم توڑ چکی ہے اور خیر کے سوتے خشک ہوچکے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اسے توفیق دینے کی بجائے اس کی محرومی کا فیصلہ کردیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ اگر اس نے خیر کی قوتوں کو مفلوج نہ کردیا ہوتا اور بھلائی کے سوتے خشک نہ ہوگئے ہوتے تو ضرور اللہ تعالیٰ اسے حق کی آوز سناتا اور ضرور یہ حق کی آواز اس کے دل و دماغ میں اترتی لیکن چونکہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس سے محروم کرچکا ہے۔ تو اب اگر اللہ تعالیٰ اسے زبردستی بھی سنائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی روگردانی میں اور اضافہ ہوگا۔ اس کو مثال میں یوں سمجھئے کہ جب کسی شخص کا معدہ خراب ہوجاتا ہے اور اس میں ہضم کرنے کی قوت ختم ہوجاتی ہے تو آپ اسے جتنی بہتر سے بہتر غذا دینے کی کوشش کریں گے اتنا ہی معدہ اسے قبول کرنے سے انکار کرے گا۔ آپ اس کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے مرغن اور طاقت بخش غذائیں تجویز کریں گے لیکن اس کا معدہ چونکہ ہضم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے اس لیے فوراً قے کر کے اسے نکال دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مریض کی صحت پہلے سے بھی زیادہ بگڑ جائے گی۔
Top