Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
تحقیق چالبازی کی ان لوگوں نے جو تم سے پہلے گزرے ہیں پس اللہ نے قصد کیا ان کی عمارت کا پس اس کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا پس گر پڑی ان پر چھت اوپر سے ، اور لایا اللہ تعالیٰ ان کے پاس عذاب جہاں سے ان کو خبر بھی نہ تھی ۔
(ربط آیات) اللہ تعالیٰ نے پہلے توحید کے دلائل بیان فرمائے اور پھر غیروں کو الہ ماننے والوں کی تردید فرمائی ، اللہ نے واضح فرمایا کہ خالق ، رب ، علیم کل ، قادر مطلق ، نافع اور ضار اس کے سوا کوئی نہیں ، لہذا عبادت کے لائق بھی کوئی نہیں ہو سکتا معبود برحق وہی اکیلا ہے اور اس بات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس کے بعد اللہ نے منکرین توحید کے باطل عقیدے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ایک تو انہیں آخرت کے محاسبے کا یقین نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ تکبر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ کفر شرک ، اور نافرمانی پر مصر ہیں ، جب ان کے سامنے اللہ کا کلام یا رسولوں کی بات پیش کی جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ، وہ اپنے تکبر کی بنا پر اللہ کے نبیوں کی بات کو معمولی سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں ، اللہ نے فرمایا کہ قیامت والے دن وہ دوہرا بوجھ اٹھائیں گے ، انہیں اپنے گناہوں کا بار بھی اٹھانا ہوگا اور ان لوگوں کے گناہوں کو بھی جن کو انہوں نے گمراہ کیا ، فرمایا یہ بہت برا بوجھ ہوگا جو وہ اٹھائیں گے ۔ (مخالفین کی چال بازیاں) آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے زمانے کے منکرین قرآن اور نبی اور اسلام کے مخالفین خصوصا مشرکین مکہ کو تنبیہ فرمائی ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھایا ہے کہ جس طرح آج تم مخالفت کر رہے ہو اسی طرح پہلے لوگوں نے بھی اللہ کے نبیوں کی مخالفت کی تو وہ دنیا وآخرت میں ذلیل و خوار ہو کر جہنم رسید ہوئے ، اسی طرح اگر تم بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ کے دین اور پیغمبر خدا کی مخالفت ترک نہیں کرو گے تو تمہارا انجام بھی پہلے لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا ۔ مشرکین مکہ نے دین اسلام کے خلاف بڑی سازشیں کیں اور نبی آخر الزمان کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کیں جن کا ذکر قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ہوا ہے ، حضور ﷺ کے خلاف باطل پراپیگنڈا مشرکین مکہ کا ایک اہم ہتھیار تھا ، کبھی شاعر کہتے کبھی کاہن کا لقب دیتے ، کبھی آپ کو ساحر کا خطاب دیتے اور کبھی نعوذ باللہ مجنون قرار دیتے تاکہ لوگ آپ کی طرف راغب نہ ہوں ، اس کے علاوہ مٹھی بھر مسلمانوں پر تشدد بھی کیا جاتا ، طرح طرح کی تکالیف پہنچائی جاتی ، ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا تاکہ وہ اسلام کا دامن چھوڑ دیں ، باہر سے آنے والوں کو راستے میں ہی روک دیتے اور انہیں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہونے دیتے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی آتا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ راستوں میں بیٹھ کر لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے اور شعیب (علیہ السلام) کے پاس جانے سے روکتے تھے ، اسی طرح مشرکین مکہ نے اس قسم کا انتظام کر رکھا تھا کہ لوگ حضور ﷺ کی بات نہ سن سکیں ، وہ جانتے تھے کہ جسے ایک دفعہ آپ کی صحبت حاصل ہوگئی ، وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا ، گذشتہ سورة الحجر کے آخری حصے میں لفظ عضین کی تشریح میں عرض کیا گیا تھا کہ ان بدبختوں نے علاقے تقسیم کر رکھے تھے کہ فلاں راستے سے تم روکو اور فلاں درے پر ہم بیٹھیں گے ، تاکہ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکیں ، چناچہ دو صحابیوں کا ذکر آتا ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ملنے کی کوشش کی تو انہیں سخت تکلیف اٹھانا پڑی ، مکہ پہنچ کر انہوں نے کسی معمولی حیثیت کے آدمی سے حضور ﷺ کے متعلق دریافت کیا تو وہیں پٹائی شروع ہوگئی ، حضرت عمرو ابن عبسہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ جس زمانے میں وہ مکہ پہنچے تو اس وقت ” جرآء علیہ قومہ “ آپ کی قوم آپ کے سخت مخالفت تھی ، لہذا حضور ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں ، تم اپنے اسلام کا برملا اظہار نہ کرو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ ، پھر جب تمہیں خبر پہنچے کہ اللہ نے اہل ایمان کو غلبہ عطا فرما دیا ہے تو ہمارے پاس آجانا انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے علاقے میں واپس چلے گئے ، پھر جب اہل اسلام حضور ﷺ کی معیت میں مدینہ طیبہ پہنچ گئے ، وہاں آپ کے قدم جم گئے اور کفار مکہ کو بدر کے میدان میں شکت فاش کا سامنے کرنا پڑا تو وہ لوگ مدینے پہنچ کر اپنے مسلمان بھائیوں میں شامل ہوگئے ، بہرحال یہاں پر اسی بات کو بیان کیا جا رہا ہے کہ پرانے مشرکوں نے بھی بڑی بڑی تدابیر اختیار کیں اور آج کے مشرک بھی انہیں کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں اللہ کی توحید کو مٹانا چاہتے ہیں اور نبی کے مشن کو ناکام بنانے پر کمر بستہ ہیں مگر تم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے مشن پر قائم رہو ان کی رسوائی کا وقت آنے والا ہے ۔ (نمرود اور فرعون کی کارگزاری) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قد مکر الذین من قبلھم “ بیشک چالبازی کی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے گزرے ہیں ، انہوں نے خدا کے دین کے خلاف بڑی سازشیں کی ، غلط پراپیگنڈا کیا ، راستوں میں بیٹھے حتی کہ جنگ وجدل تک نبوت پہنچی ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نمرود اور فرعون کی مثالیں بیان فرمائیں کہ انہوں نے اللہ کے جلیل القدر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے خلاف کیسی کیسی تدبیریں کیں جب ابراہیم (علیہ السلام) خدا کا نام لیتے تو نمرود کہتا کہ تمہارے خدا کا مقابلہ میں کروں گا ، چناچہ اس نے حکم دیا کہ ایک بہت بڑا مینار تیار کیا جائے جس پر چڑھ کر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے خدا کا مقابلہ کروں گا ، چناچہ بائیبل کی تفسیری روایات ، عبداللہ بن عباس ؓ اور وہب ؓ کی روایات میں آتا ہے کہ نمرود نے اس مقصد کے لیے 7500 فٹ بلند مینار تعمیر کرایا تھا ، مگر اس کے اوپر چڑھ کر مقابلہ کرنے کا موقعہ نہ ملا ، اللہ تعالیٰ نے ایسی تیز آندھی بھیجی کہ مینار کی چوٹی تو ٹوٹ کر دور پانی میں جا گری اور باقی حصہ منہدم ہونے پر ہزاروں آدمی اس کے نیچے آکر کچلے گئے ، بعض کے دماغ خراب ہوگئے اور بعض کی زبان ہی بدل گئی ، وہ زبان سے کہنا کچھ چاہتے ، مگر ادا کچھ اور ہی ہوتا تھا ، فرعون نے بھی اپنے وزیر سے کہا تھا کہ میرے لیے ایک بلند وبالا مینار تعمیر کراؤ تاکہ میں اوپر چڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ سکوں ، یہ سب پہلے لوگوں کی چالیں تھیں جو انہوں نے اللہ کے سچے دین کے خلاف اختیار کیں ۔ ادھر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ بھی کام کر رہی تھی ، جب منکرین خدا اور رسول نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں تو فرمایا (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد “۔ کہ اللہ نے ان کی عمارتوں کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا (آیت) ” فخر علیھم السقف من فوقھم “۔ اور اوپر سے ان پر ان کی چھتیں ہی گر پڑیں ، اور ان کی تمام تدبیریں ناکام ہوگئیں ، یہ دراصل مکہ والوں کو تمثیل کے طور پر بات سمجھائی جارہی ہے کہ پرانی اقوام میں سے بھی جس کسی نے سرکشی کی اور خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرنا چاہا ، اللہ نے ان کی جڑ بنیاد کو ہی اکھاڑ کر ان کو نیست ونابود کردیا ۔ اور پھر (آیت) ” واتھم العذاب من حیث لایشعرون “۔ ان پر ایسی جگہ سے خدا کا عذاب آیا جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا ، لہذا اگر تم بھی پرانے مشرکین کی روشن پر چلو گے تو تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا ، اللہ تعالیٰ نے چند سالوں میں مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا ، مکہ فتح ہوگیا اور وہاں سے مشرکین کا نام ونشان تک مٹ گیا ۔ (مسلسل سازشیں) خدا کے دین کے خلاف سازشیں ابتداء سے ہی ہوتی رہی ہیں پہلے زمانے کے لوگ بھی تدبیریں اختیار کرتے رہے اور پھر نبی آخر الزمان ﷺ کے مخالفین نے بھی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ، اور اس کے بعد بھی ہر دور میں اسلام کے خلاف بڑے بڑے منصوبے بنتے چلے آئے ہیں ، آج بھی یہودی ، عیسائی ، ہندو اور اشتراکی اسلامی اور اہل اسلام کے خلاف ہزاروں سکی میں بنا رہے ہیں ، کہیں سکولوں اور کالجوں کے ذریعے لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہیں ہسپتالوں کی آڑ میں اسلام مخالف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے ، انسانیت کے نام نہاد خیرخواہ یہ لوگ دراصل دین اسلام پر شب خون مارتے ہیں ، مفت لٹریچر تقسیم کرکے لوگوں کے دین پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ، امیر شکیب ارسلان (متوفی 1940 ئ) بڑے مجاہد آدمی تھے ترکی کے ہسپتالوں کے انچارج اور دین کے شیدائی تھے ، وہ لکھتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کے یہودیوں اور عیسائیوں نے قرآن پاک اور پیغمبر اسلام کے خلاف چھ لاکھ کتابیں شائع کی ہیں کہ کسی طرح مسلمان اپنے دین سے بیگانہ ہوجائیں کہیں یہ سازش متشرقین کے ذریعے پروان چڑھائی جا رہی ہے ، مشرقی علوم کے نام نہاد مغربی لوگ قرآن پاک اور دین اسلام پر مختلف قسم کے اعتراضات جاری کرکے لوگوں کو دین سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، غرضیکہ کبھی مخالفت کرکے اور کبھی موافق بن کر ہر طریقے سے دین کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، خاص طور پر انگریز تو اس حد تک منصوبہ بندی کرچکے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کا تعلق قرآن پاک سے منقطع نہیں ہوتا ، یہ ہمارے قابو میں نہیں آسکتے ، یہودیوں نے بھی برملا کہہ دیا کہ جب تک مسلمانوں کی عقیدت محمد ﷺ پر پختہ ہے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے ، چناچہ ہر دو گروہ اپنے اپنے مشن کی کامیابی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں ، ادھر مسلمان ہیں جو ان سازشوں سے بیخبر سوئے ہوئے ہیں ، انہیں اس وقت پتہ چلتا ہے جب یہود ونصاری کی کوئی تدبیر کامیابی کے قریب پہنچ جاتی ہے اور وہ اپنی بدعملی کی وجہ سے مارے جاتے ہیں ۔ باطل فرقوں میں مرزائیوں اور رافضیوں کا بھی یہی حال ہے ، وہ بھی دین حقہ کے خلاف مسلسل سازشیں کرتے رہتے ہیں ، مرزائیوں کی زد میں ہم ایک صدی سے آئے ہوئے ہیں ، اب تو قانونی طور پر ان کی حیثیت کمزور ہوچکی ہے ، وگرنہ اقتدار پر قابض اکثر لوگ انہی کی طرفداری کرتے آئے ہیں ، ان کا لڑیچر اب تک پھیلایا جارہا ہے اور وہ دنیا بھر میں اپنے باطل دین کے لیے سرگرم ہیں ، ادھر رافضیوں نے بھی اپنی پراپیگنڈا مہم تیز کررکھی ہے گویا رافضیت ہی اصل اسلام ہے ، ایرانی انقلاب مہم تیز کر رکھی ہے گویا رافضیت ہی اصل اسلام ہے ، ایرانی انقلاب کے بعد خمینیوں کی حمایت میں بڑا لٹریچر تقسیم ہو رہا ہے وہ اپنے آپ کے اسلام کے نمائندہ کے طور پر دنیا میں پیش کرتے ہیں ، حالانکہ وہ رافضی ہیں ۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ دشمنان دین کو پہلے بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، ان کی عمارتوں کو جڑ وبنیاد سے اکھاڑ دیا گیا ، اور وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے مخالفین خدا ورسول کی طرف سے تھوڑے عرصہ کے لیے شور وشر ہوتا ہے بعض لوگ ان سے متاثر بھی ہوئے ہیں ، مگر ان کی سازش جلد ہی منظر عام پر آجاتی ہے اور ان کی تمام سکی میں جھاگ کی طرح ختم ہوجاتی ہیں ، اسلام اپنی ذاتی خصوصیت اور حقانیت کی بنا پر قائم ہے اور تاقیام قیامت قائم رہے گا۔ (ظالموں کی رسوائی) فرمایا دین کا دنیا میں تو یہ حال ہوا (آیت) ” ثم یوم القیمۃ یجزیھم “۔ پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل ورسوا کریگا ، اس دنیا میں مشرکین شرک کی حمایت میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں مگر قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا (آیت) ” ویقول این شرکآء ی الذین کنتم تشاقون فیھم “۔ بتاؤ آج میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم دنیا میں جھگڑا کیا کرتے تھے میرے نبیوں کی بات نہیں مانتے تھے اور شریکوں کی حمایت کیا کرتے تھے اب ان کو بلاؤ تاکہ تمہاری مدد کریں ۔ اس وقت (آیت) ” قال الذین اوتوا العلم “۔ اہل علم کہیں گے ، جن کو اللہ نے دنیا میں علم کی روشنی عطا فرمائی اور وہ کفر شرک سے بیزار ، وہ کہیں گے (آیت) ” ان الخزی الیوم والسوء علی الکفرین “۔ بیشک آج کے دن کی رسوائی اور برائی یعنی عذاب کفر کرنے والوں پر ہے انہوں نے دنیا میں اللہ کی توحید کا انکار کیا ، خدا کے شریک ٹھہرانے ، اللہ کے نبیوں کی مخالفت کی ، وہ دنیا میں بھی ناکام ہوئے اور آج قیامت کے دن بھی ان کے مقدر میں رسوائی اور ذلت ہے ۔ فرمایا کافروں کی حالت یہ ہے (آیت) ” الذین تتوفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم “۔ کہ اللہ کے فرشتوں نے ان کو اس حالت میں موت دی کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے کفر اور شرک سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں جس کا ارتکاب کرکے وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے حضور ﷺ دعا میں کہتے تھے ” اللھم انی اعوذ بک من شرالحیوۃ ومن شر المماۃ “۔ اے اللہ ! میں بری زندگی اور بری موت سے پناہ مانگتا ہوں ، بری زندگی یہ ہے کہ انسان عمر بھر بدعقیدگی میں مبتلا رہے اور بری موت یہ ہے کہ اسی بدعقیدگی پر خاتمہ ہو ، ایسا شخص توحید خداوندی سے خالی گیا ، لہذا اس سے بری موت کون سی ہو سکتی ہے ۔ ؟ فرمایا ، یہ لوگ دنیا میں اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے ، انہوں نے کفر اور شرک کا راستہ پکڑا ، حالانکہ اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ (لقمان) یعنی شرک بہت بڑا ظلم ہے ، نیز فرمایا (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “۔ (البقرہ) اور کافر وہی ہیں ظلم کرنے والے ، تو فرمایا کہ دنیا میں تو یہ کفر وشرک میں مبتلا رہے مگر قیامت کے دن اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کریں گے (آیت) ” فالقوا السلم “ اس وقت اپنی اطاعت اور کفر شرک سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور کہیں گے (آیت) ” ماکنا نعمل من سوئ “۔ ہم تو دنیا میں برائی کا ارتکاب نہیں کیا کرتے تھے ، اس وقت اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کریں گے ، مگر اللہ فرمائیگا ، تم جھوٹ بولتے ہو (آیت) ” بلی ان اللہ علیم بما کنتم تعملون “۔ کیوں نہیں ؟ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تم دنیا میں کیا کرتے تھے وہ علیم کل ہے اور تمہاری ایک ایک حرکت اور ایک ایک عمل سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ تم دنیا میں کفر اور شرک پر بضد رہے ، لہذا آج تمہارا انکار کچھ مفید نہیں ہو سکتا ، دوسری جگہ موجود ہے کہ جب وہ زبان سے انکار کریگا تو زمین ، انسان کے جوارح اور دوسری چیزیں اس کے خلاف گواہی دیں گی ، خطہ ارضی ، پہاڑ ، درخت بول کر کہیں گے کہ اس شخص نے فلاں مقام پر فلاں گناہ کیا ، ہاتھ اور پاؤں گواہ بن جائیں گے اور اس کی کوئی بات نہیں چل سکیں گی ، (جہنم میں داخلہ) پھر ارشاد ہوگا (آیت) ” فادخلوا ابواب جھنم “۔ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ، اب تمہارے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں (آیت) ” خلدین فیھا “۔ تمہیں اس جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا ، پچھلی سورة میں گذر چکا ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں اور ہر گیٹ سے منقسمہ جرائم کے مطابق داخلے ہوں گے ، فرمایا (آیت) ” فلبئس مثوی المتکبرین “۔ تکبر کرنے والوں کا یہ بہت برا ٹھکانا ہے ، انہوں نے غرور وتکبر کی وجہ سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بات کو تسلیم نہ کیا ، خدا کی وحدانیت کو معمولی چیز سمجھ کر ٹھکرا دیا ، تو فرمایا کہ تمہارے تکبر کی سزا یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے اس جہنم ایندھن بن جاؤ ۔
Top