Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 51
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : سو تم عبادت کرو اس کی ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سییدھا
بیشک اللہ تعالیٰ میرا پروردگار ہے اور تمہارا پروردگار ہے۔ پس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔
بنیادی عقیدہ : گذشتہ درس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعض معجزات کا تذکرہ تھا جن کے متعلق آپ نے اپنے مخاطبین سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں ، اس لیے میرا تم سے مطالبہ ہے۔ کہ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ قرآن پاک شاہد ہے۔ کہ جن انبیاء کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ان سب نے اپنی اپنی قوم سے یہی کہا کہ اے لوگو ! اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ حضرت صالح ، حضرت ہود ، حضرت شعیب اور حضرت لوط (علیہم السلام) کے واقعات سے یہی پتہ چلتا ہے۔ یہ بنیادی عقیدہ تخلیق آدم سے لے کر ہر دور میں ہر امت میں پایا گیا ہے۔ اور انبیاء اسی عقیدے کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ یہاں پر بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے اسی عقیدے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان اللہ ربی و ربکم۔ بیشک میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے۔ وہی خالق ہے ، وہی مالک ہے اس لیے فاعبدوہ عبادت بھی اسی کی کرو۔ یہ عقیدہ دین کی اساس ہے اور تمام انبیاٗ کی بنیادی تعلیم یہی ہے۔ اسی سے عیسائیوں کے باطل عقیدہ کا بھی رد ہوتا ہے۔ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا یا خود خدا مانتے ہیں ، میرا اور تمہارا سب کا رب تو ایک وحدہ لا شریک ہے۔ تم خواہ مخواہ مجھ میں ربوبیت کی صفت مانتے ہو۔ اعتقاد اور عمل : یہاں پر دو باتیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی بات ہے۔ ان اللہ ربی وربکم۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس بیان کے ذریعے سمجھانا یہ چاہتے ہیں۔ کہ دیکھو بھائی ! ہم سب مخلوق ہیں۔ میرا اور تمہارا سب کا رب ایک ہی ہے ہماری سب کی منزل بھی ایک ہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت پر ایمان لانا۔ اور یاد رکھو ! جب تک کسی شخص کا اعتقاد برحق نہ ہو ، اس کی قوت عقلی اور علمی کامل نہیں ہوسکتی۔ لہذا اس قوت کو کامل بنانے کے لیے اعتقاد کی سچائی اور اس کی پختگی ضروری ہے۔ اور پھر اعتقاد برحق کی آخری منزل اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر کامل ایمان لانا ہے اگر عقیدے میں شرک شامل ہوگیا ، تو عقیدہ فاسد ہوجائیگا اور قوت علمیہ ضائع ہوجائے گی۔ اور انسان کو مطلوبہ کمال کبھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں دوسری بات فاعبدوہ ہے۔ اور یہ چیز قوت عملیہ کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرے اس کے اوامرو نواہی پر عمل کرے۔ اس طرح اس کی قوت عملی بھی کمال کو پہنچ جائے گی۔ پھر جب قوت علمی اور قوت عملی دونوں اپنے معایر کو پہنچ جائیں گی تو فرمایا ھذا صراط مستقیم یہی وہ سیدھا راستہ ہے جس کی طلب ہر مسلمان ہر نماز میں کرتا ہے اور کہتا ہے اھدنا الصراط المستقیم۔ یہی وہ راستہ ہے جس کی تعلیم تمام انبیاٗ کرام دیتے آئے ہیں۔ ھذا صراط علی مستقیم۔ یہ اساسی اعتقاد ہے۔ جس کو چھوڑ کر یہودی گمراہ ہوگئے۔ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ و برباد کردیا۔ برخلاف اس کے عیسائیوں نے اللہ کے بندے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت کے درجے تک پہنچایا۔ وہ بھی صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔ اور ناکام ہوئے۔ جب تک یہ اساسی عقیدہ درست نہیں ہوگا ، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری : فرمایا۔ فلما احس عیسیٰ منہم الکفر۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان لوگوں کی طرف سے کفر محسوس کیا۔ یہ لوگ آپ کے سخت مخالف تھے۔ آپ کو طرح طرح سے تکالیف پہنچاتے تھے۔ جب ان کی عداوت حد سے بڑھ گئی تو آپ نے فرمایا۔ قال من انصاری الی اللہ۔ کون ہے جو میری مدد کرے اللہ کی راہ میں بعض فرماتے ہیں ۔ کہ چونکہ یہودیوں نے عیسیٰ کی بات نہ مانی ، اس لیے آپ نے غیر بنی اسرائیل کے لوگوں سے خطاب کیا کہ مطلقاً میری مدد کرنے والا کون ہے۔ اس موقع پر ، قال الحواریون ، حواریوں نے کہا۔ نحن انصار اللہ ، ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ حواری وہ مخلص لوگ ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ حور سفیدی کو کہتے ہیں ، یعنی وہ چیز جو خالص ہو۔ یہ لوگ بھی چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مخلص تھے ، اس لیے ان کو حواری کہا گیا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ یہ لوگ دھوبی تھے اور کپڑے دھویا کرتے تھے۔ ان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گزر ہوا ، تو وپوچھا کیا کرتے ہو ، عرض کیا ، ہم کپروں کو میل کچیل سے صاف کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم کپڑوں کو صاف کرتے ہو ، آؤ ! میں تمہیں دلوں کی صفائی کا راز بتاؤں۔ وہ لوگ آپ کے معتقد ہوگئے۔ اور آپ کی مدد کرنے لگے۔ یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ وہ بنی اسرائیل سے تھے یا غیر بنی اسرائیل سے۔ تاہم زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ لوگ بنی اسرائیل میں سے تھے۔ اور تعداد میں بارہ تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انہیں مختلف مقامات پر تبلیغ کے لیے بھیجتے اور یہ اللہ کا پیغام حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انہیں مختلف مقامات پر تبلیغ کے لیے بھیجتے اور یہ اللہ کا پیغام حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منشاٗ کے مطابق لوگوں تک پہنچاتے۔ بہرحال حواری مخلص دوست پر بولا جاتا ہے۔ اور حور بمعنی سفید اس لیے کہ ان کے دل پاک اور سفید تھے۔ توحید سے لبریز تھے اور ہر قسم کی دورت سے پاک تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ لکل نبی حواری۔ ہر نبی کا کوئی مخلص دوست اور ساتھی ہوا کرتا ہے۔ اور میرا حواری زبیر ہے ، جو آپ کے پھوپھی اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ بڑے بہادر مجاہد تھے اللہ تعالیٰ نے اتنا حوصلہ اور قوت ایمان دی تھی۔ کہ جنگ یرموک میں لاکھوں دشمنوں کی صفوں میں تن تنہا گھس گئے۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ حضرت زبیر نے اپنے بیٹے عروہ سے کہا ، میرے جسم میں ایک انجچ جگہ بھی ایسی نہیں جہاں تیر یا تلوار کا زخم نہ آیا ہو۔ ایک دفعہ نیزہ آپ کے کندھے سے پار ہوگیا تھا۔ زخم پوری طرح بھرا نہیں تا۔ بلکہ کندھے میں سوراخ بن گیا تھا۔ عروہ اس میں ہاتھ ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔ بہرحال حضور ﷺ نے حضرت زبیر کو اپنا حواری بتایا۔ الغرض ! حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں ، یعنی ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ان نصروا اللہ ینصرکم جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے ، اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اللہ کو اپنی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو غنی ہے اور وہ خود ہر ایک کا مددگار ہے۔ اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین ، اس کی کتاب ، اس کے نبی ، اس کی شریعت اور عقیدہ حق کی مدد ہے ، اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے تن من گھن کی بازی لگا دینا ہی اللہ کی مدد ہے۔ حواریوں نے اپنے اس دعوی کی تائید میں کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں ، یہ بھی کہا ، امنا باللہ ، ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے۔ واشھد بانا مسلمون۔ آپ بھی گواہ بن جائیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ اس طرح حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ایمان کا گواہ بنا لیا۔ حواریوں کی دعا : عیسی (علیہ السلام) کے حواریوں نے اللہ رب العزت کے حضور دعا بھی۔ ربنا امنا بما انزلت۔ اے ہمارے پروردگار ! بیشک ہم ایمان لائے ہیں۔ اس چیز کے ساتھ جو تو نے نازل کی ہے۔ یعنی کتاب واتبعنا الرسول اور ہم نے رسول (عیسی علیہ السلام) کی پیروی کی ہے۔ فاکتبنا مع الشھدین۔ لہذا ہمیں بھی گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ گویا کتاب و سنت کے ساتھ اپنا متعلق محکم کرنے کے بعد اللہ کے ہاں اپنے ایمان کی رجسٹری کرا رہے ہیں۔ تاکہ قیامت کے دن اپنے ایمان کا پورا پورا بدلہ پا سکیں۔ یہ ہے وہ نقشہ جو قرآن پاک نے حواریوں کا کھینچا ہے۔ البتہ انجیل میں ان حواریوں کا بالکل معکوس نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے تو حواریوں کا ایمان بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یہ حواریوں کا قصور نہیں ، بلکہ ان یہودیوں کی تحریف کا نتیجہ ہے ، جن کے ہاتھ میں تورات اور انجیل رہی۔ یہ دونوں کتابیں تحریفات سے پر ہیں۔ خود عیسائی پادریوں کا بیان ہے کہ انجیل میں تین ہزار غلطیاں موجود ہیں۔ تحریف شدہ تورات میں انبیاء سے بڑی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ، حتی کہ کفر و شرک اور بےحیائی تک ان سے منسوب ہے یحرفون الکلم عن مواضعہ ، یہ لوگ بائیبل کے ہر ایڈیشن میں کوئی نہ کوئی تبدیلی کرتے رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے خدا کی تابوں میں ردوبدل کردیا ہے۔ خود ان کی اپنی ذہنیت بگڑ چکی ہے مفسد اور سازشی ذہن رکھتے ہیں اور ہمیشہ بنی نوع انسان کی برائی کی تدبیریں سوچنے والے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام لوگ ان کے دام فریب میں پھنس جائیں اور پھر وہ انہیں جس طرح چاہیں گمراہ کرتے رہیں۔ یہ کم بخت ایسی ایسی سکی میں تیار کرتے ہیں۔ جن کے نتائج سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال بعد سامنے آئیں۔ یہودیوں کی سازش : شام و فلسطین کے یہودی شاہ روم کی عمل داری میں تھے تاہم انہیں مقامی طور پر کچھ آزادی بھی حاصل تھی بالکل ایسے ہی جیسے کسی وفاق میں صوبوں کو صوبائی معاملات میں قدرے خود مختاری ہوتی ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) ان بدبختوں کی برائیوں کی نشاندہی کرتے تھے ، جس کی وجہ سے یہ ان کے مخالف تھے ، آپ کو گالیاں دیتے ، پتھر مارتے ، آپ کے خلاف غلط پراپیگنڈا کرتے ، ان کے خلاف سازشیں کرتے ، غرضیکہ آپ کی ایذا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ کہتے کہ یہ شخص تورات کا انکار کرکے دین کو بگاڑ رہا ہے۔ آپ پر ملحد ہونے کا الزام لگایا گیا اور آپ کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا۔ بہرحال انہوں نے ایک مخفی تدبیر کی۔ کہ عیسیٰ کو عدالت میں پیش کرکے آپ کو سزائے موت دلائیں۔ اس ضمن میں آپ کو ایک مکان میں بند کردیا گیا ، تاکہ آپ ان کی گرفت سے نکل نہ سکیں۔ آپ کے خلاف اسی سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ومکروا ، اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی۔ بعض اوقات لفظ مکر سے غلط فہمی ہوتی ہے۔ اردو اور پنجابی میں مکر سے مراد فریب اور دھوکا ہے۔ جب کہ عربی زبان میں یہ لٖط خفیہ تدبیر کے لیے بولا جاتا ہے۔ بہرحال یہودیوں نے خفیہ تدبیر کی ، کہ کسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرادیا جائے۔ اور ادھر اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسی منشاء کے متعلق فرمایا۔ ومکر اللہ ۔ اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی ، وہ اپنے بندے کو یہودیوں کے ناپاک ہواتھوں سے محفوظ کرنا چاہتا تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس طرح آسمانوں پر اٹھا لیا اس کا ذکر آگے آئیگا۔ فرمایا۔ واللہ خیر المکرین۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ یہ مشہور مقولہ ہے۔ کہ جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودتا ہے۔ (چاہ کندہ را چاہ درپیش) وہ خود اسی میں گرتا ہے۔ جو کسی کے لیے بری تدبیر کرتا ہے ، وہ خود اس کا شکار ہوجاتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کامیاب ہوئی۔ اللہ نے انہیں وہاں سے صحیح سلامت نکال لیا۔ اور یہودی اپنی سازش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آگے آپ کے آسمان پر اٹھائے جانے کی تفصیلات آئیں گی۔
Top