Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 51
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : سو تم عبادت کرو اس کی ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سییدھا
بلاشبہ اللہ میرا اور تمہارا سب کا رب ہے پس اس کی بندگی کرو ، یہی دین کا سیدھا راستہ ہے
عیسیٰ (علیہ السلام) کا اعلان کہ ربوبیت صرف اللہ ہی کو سزا وار ہے : 120: سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی زبان رسالت سے اس کا اعلان کرایا جارہا ہے کہ ” میری قوم کے لوگو ! اللہ میرا اور تمہارا سب کا رب ہے۔ پس اس کی بندگی کرو یہی دین کا سیدھا راستہ ہے۔ “ جب سے نظام کائنات مشیت ایزدی نے ترتیب دیا اس وقت سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک جتنے انبیاء کرام آئے سب کی دعوت یہی تھی کہ ” اللہ کی ذات کے سوا کوئی الٰه اور معبود نہیں وہی ساری کائنات کا رب بھی ہے۔ “ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قوموں اور امتوں نے ہمیشہ انہیں لوگوں کو جو یہ صدا بلند کرنے والے تھے الٰه اور معبود بنایا اور رب بنا کر ان کی پوجا و پرستش کرنی شروع کردی۔ قرآن کریم سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دونوں بھائیوں کو رسول بنا کر جب فرعون کی طرف بھیجا تو ان سے کہا کہ تم دونوں بھائی جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے الٰہی پیغام جب فرعون تک پہچا دیا تو فرعون بڑا متعجب ہوا اور کہنے لگا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تم دونوں کا رب کون ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بزبان رسالت جواب دیا اور فرمایا ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہرچیز کو اس کی ساخت بخشی اور پھر اس کو راستہ بھی بتا دیا۔ “ فرعون کے اس سوال کا منشا کیا تھا ؟ یہی کہ تم دونوں کسے رب بنا بیٹھے ہو۔ مصر اور اہل مصر کا رب تو میں ہوں۔ اس نے ایسا کیوں کہا ؟ اس لیے کہ وہ اہل مصر سے انی ربوبیت کو منوا چکا تھا۔ اور وہ استفسار ان سے اس سے پہلے بھی دریافت کرچکا تھا کہ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى اے اہل مصر کیا تمہارا رب اعلیٰ میں ہوں ؟ ( سورة ناعات) اور ایک جگہ اس کی زبان سے قرآن کریم نے یہ جملہ بھی درج کیا ہے کہ : یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ ہٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ 1ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ0051 (الزخرف) اے قوم ! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہه رہی ہیں ؟ خیال رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی یہ بات پیچھے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتا تھا اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی اس لیے فرعون کا دعویٰ ” واحد مرکز پرستش “ ہونے کا نہ تھا بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوع انسانی کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ آکر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے۔ بعض لوگوں کو اس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ وہ اللہ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا مگر یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وہ عالم بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا۔ اس کی تصدیق مطلوب ہو تو سورة المؤمن آیت 28 تا 34 اور سورة زخرف آیت 53 ملاحظہ کریں۔ یہ آیات اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اس کو انکار نہ تھا البتہ جس چیز کو وہ ماننے کے لیے تیارنہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسول آکر اس پر حکم چلائے۔ علمائے امت مسلمہ ایسی آیات پر غوروفکر کر کے اپنی حیثیت نائبین رسالت کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے زمانہ کے ان فرعونوں کو جو حکومت کے ایوانوں تک مال و دولت اور دھونس و دھاندلی کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں اور آج بھی وہ اپنی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل عملاً تسلیم نہیں کرتے ان کو وہی درس دیتے جو سارے انبیاء کرام اپنی اپنی امتوں کو دے چکے ہیں تو آج اس ملک کی حالت اس سے بالکل مختلف ہوتی اور علمائے امت مسلمہ بھی اپنے منصب کے صحیح ترجمان ہوتے۔ کاش کہ آج تک ایسا نہ ہوسکا بلکہ علمائے امت ایک بار بھی اجتماعی قدم نہ اٹھا سکے اور اس المیہ کا اصل سبب تشتت و تفریق کے سوا کچھ بھی نہیں حالانکہ یہ شیطان کا علم تھا جو علما نے تھام لیا۔ زیر نظر آیت میں بتایا گیا ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی اصل تعلیم اسی عبدیت اور اسی توحید الٰہی کی تھی ظالموں نے اسے مسخ کر کے تثلیث بنا دیا جو شرک کی ایک کھلی ہوئی شکل ہے۔ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ میں اشارہ اس طرف ہے کہ اللہ کی مخلوق مربوب اور عبد ہونے کے اعتبار سے پیغمبر اور امتی سب یکساں ہیں کیونکہ نبی و رسول بھی اس طرح کی مخلوق ہے جس طرح کے سارے انسان مخلوق ہیں پھر مخلوق کی صفات خالق کی صفات سے کیونکر مل سکتی ہیں اور خالق کی صفات کا متحمل ایک انسان کیسے ہو سکتا ہے ؟ تثلیث کا شرک جن ظالموں کی بھی ایجاد ہو بہرحال حضرت مسیح (علیہ السلام) کا دامن اقدس اس آلودگی سے بالکل پاک اور منزہ ہے۔ اسی طرح ساری دنیا عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدائی صفات میں شریک ٹھہرائے لیکن مسیح (علیہ السلام) اللہ ہی کی الوہیت اور خالقیت کا اعلان کرتے رہے تھے انہوں نے کبھی بھی اپنے خالق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
Top