Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 51
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : سو تم عبادت کرو اس کی ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سییدھا
کچھ شک نہیں کہ خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا رستہ ہے
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ : فاتقوا اللہ واطیعون میں جو مضمون مجمل تھا یہ اس کی تفصیل ہے اور اس میں قوت نظریہ اور قوت عملیہ دونوں کے استکمال کی طرف اشارہ کیا ہے صحیح اعتقاد جس کا بنیادی پتھر توحید ہے قوت نظر یہ کا استکمال کرتا ہے۔ اس کا بیان ان اللہ ربی و ربکم سے کردیا اور مامورات و منہیات کی پابندی سے قوت عملیہ کامل ہوتی ہے اس کا اظہار فاعبدوہ سے فرما دیا پھر پہلے اللہ کو اپنا رب قرار دیا اور اپنی عبدیت کا اقرار کیا تاکہ آئندہ ہونے والے فتنہ کا دروازہ بند ہوجائے کہیں لوگ آپ کو اللہ کا بیٹا یا تین میں کا تیسرا الٰہ نہ کہنے لگیں۔ آخر میں دونوں جملوں کے مضمون کو پختہ کرنے کے لیے فرمایا۔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ : یہ ہی سیدھا راستہ ہے یعنی اقرار توحید اور عبادت (تعمیل اوامرو نواہی) دونوں کو جمع رکھنا ہی ایسا راستہ ہے جس کا صحیح ہونا ثابت ہے۔ یہ ہی مطلب ہے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کا قُلْ اٰمنْتُ بِ اللہ ِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ آپ ﷺ کے بعد مجھے کسی سے نہ پوچھنا پڑے اس کے جواب میں حضور ﷺ نے مذکورہ بالا جملہ فرمایا تھا۔
Top