Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور نہیں سکھایا ہم نے اس (پیغمبر) کو شعر کہنا اور نہ ہی لائق ہے اس کے لیے ، نہیں ہے یہ مگر نصیحت اور قرآن کھول کر بیان کرنے والا
گزشتہ آیات میں اللہ نے میدان حشر کے کچھ واقعات بیان فرمائے۔ قیامت والے دن گمراہ لوگ اپنے برے اعمال و افعال اور برے عقائد سے انکار کریں گے تو ان کی زبانیں بند ہوجائیں گی اور ان کے ہاتھ اور پائوں بول کر ان کے خلاف گواہی دیں گے اور ان کے کرتوت ثابت ہوجائیں گے۔ اب آخر سورة میں اللہ نے توحید ، قرآن کی حقانیت اور جزائے عمل کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور ضمناً رسالت کا ذکر بھی آگیا ہے۔ الغرض سورة کے اس آخری حصے میں چاروں بنیادی مسائل کو اختصار کے ساتھ دہرایا جارہا ہے۔ کافر اور مشرک لوگ قرآن پاک کو اللہ کا کلام تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ اسے شاعری ، کہانت یا سحر سے تعبیر کرتے تھے کبھی کہتے بل افترہ کہ نبوت کے دعویدار نے اسے افترا کیا ہے یعنی خود بنا کرلے آیا ہے اور پھر اسے خدا کی طرف منسوب کردیا ہے ، تو اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے کلام شاعر ہونے کی موثر انداز میں تردید فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وما علمنہ الشعر اور ہم نے اپنے پیغمبر کو شعر گوئی سکھائی ہی نہیں۔ بھلا جس کو کسی کام کی تربیت ہی نہ ہو وہ کیسے اس کام کو انجام دے گا۔ حقیقت یہ ہے وما ینبغی لہ کہ شعر و شاعری تو ہمارے نبی کے شایان شان ہی نہیں ہے۔ بھلا وہ اپنی طرف سے کس طرح شعر بنا کر پیش کردے گا۔ فرمایا یہ قرآن کریم اشعار کا مجموعہ نہیں ان ھو الا ذکر بلکہ یہ تو سراسر نصیحت کی بات ہے وقران مبین اور کھول کر بیان کرنے والا قرآن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کی بنیاد تو وہم اور تخیل پر ہوتی ہے۔ اللہ نے سورة الشعراء میں فرمایا ہے والشعرا یتبعھم الغاون (آیت 224) کہ شعراء کے پیچھے لگنے والے اکثر گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔ الم ترانھم فی کل واد یھیمون (آیت 225) کیا تم نے دیکھا نہیں کہ شاعر کس طرح ہر وادی میں خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں کسی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں اور اگر کسی کی مذمت کی ہے تو فحش گوئی تک پہنچ گئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کسی شعر میں جس قدر جھوٹ ہوگا اور خیالی پلائو پکایا گیا ہوگا اسی قدر وہ پسندیدہ ہوگا اور اس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جائیں گے پیچ در شعر و در فن او چو اکذب اوست احسن او شعر جتنا جھوٹا ہوگا اتنا ہی مزیدار ہوگا لہٰذا اس فن میں زیادہ دلچسپی نہ لو یہی وجہ ہے شعر و شاعری نبوت و رسالت کے منافی ہے۔ شعر گوئی میں استثنیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیکر ہر زبان میں شعر و شاعری ہوتی رہی ہے مگر اکثر و بیشتر لوگ غلط کار ، جھوٹے اور خیالی ہوتے ہیں ، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاہم استثنیٰ یہاں بھی ہے۔ خود سورة الشعراء میں موجود ہے کہ اکثر شعراء کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ الا الذین امنوا و عملو الصلحت (آیت 227) مگر بعض ایماندار شاعر اچھا کلام بھی کہتے ہیں جس سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ شاعری بذات خود تو بری چیز نہیں مگر اس کا جھوٹ اور مبالغہ آرائی اس کو برا بنا دیتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ شعر و شاعری بھی ایک کلام ہے۔ اس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور برا حصہ برا ہے۔ تاہم اس میں برائی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ شعراء کی دروغ گوئی اور قول و فعل کا تضاد ہوتا ہے انھم یقولون مال یفعلون (الشعرا 226) شاعر لوگ زبان سے بڑی باتیں کرتے ہیں مگر عمل میں صفر ہوتے ہیں۔ تاہم دنیا میں اچھے شاعر بھی ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ کے اپنے زمانہ مبارکہ کے مشہور شاعر حسان بن ثابت ؓ اپنے اشعار کے ذریعے اسلام کا دفاع کیا کرتے تھے۔ جب کفار اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف شعر گوئی کرتے تھے تو حضور ﷺ حضرت حسان ؓ کو جواب دینے کے لیے کہتے۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے حضرت حسان ؓ سے فرمایا کہ ان کافروں کو جواب دو جبرئیل امین تمہارے موید ہوں گے ، اسی طرح مولانا روم کی مثنوی میں بڑی کام کی باتیں ہیں۔ ہمارے قومی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کا کلام بھی بہت اچھا ہے انہوں نے قوم و ملت کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ اسی طرح شیخ سعدی (رح) کی گلستان اور بوستان کے تراجم دنیا بھر کی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ان میں بڑے تجربے اور نصیحت کی باتیں ہیں۔ یہ کتابیں دینی مدرسوں میں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ کسی نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت (خازن ص 15 ج 6 و طبری ص 27 ج 23 و معالم التنزیل ص 206 ج 3 و احکام القرآن للحصاص ص 376 ج 3) کیا ، کیا حضور ﷺ کبھی بطور مثال کسی شعر کا ذکر بھی فرماتے تھے ؟ فرمایا ہاں ! بعض اوقات ایک آدھ شعر یا مصرعہ اپنی زبان سے ادا فرماتے تھے۔ مثلاً آپ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار پڑھ لیا کرتے تھے۔ لولا اللہ ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا (اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت سے نہ نوازتا تو نہ صدقہ کرسکتے نہ نماز ادا کرپاتے) اسی طرح زمانہ جاہلیت کے ایک شاعر کا شعر بھی آپ بعض دفعہ زبان پر لے آتے تھے (ابن کثیر ص 579 ج 3 و روح المعانی ص 48 ج 23 و خازن ص 15 ج 6) ویاتیک بالاخبار من لم تزدد ستبدی لک الایام ما کنت جاھلا (زمانہ تیرے سامنے وہ باتیں ظاہر کردے گا جس سے تو ناواقف ہے اور تیرے پاس خبریں وہ لوگ لائیں گے جنہیں تو نے کوئی توشہ نہیں دیا ہوگا) زمانہ جاہلیت میں کوئی خبر معلوم کرنے کے لیے بڑا اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ اس کام کے لیے کوئی آدمی بھیجنا پڑتا ، اس کے لیے سواری کا انتظام کرنا ہوتا اور اسے زاد راہ کے علاوہ کچھ دیگر معاوضہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ مگر آج مادی ترقی کے زمانہ میں دنیا بھر کی خبریں گھر بیٹھے بلا معاوضہ حاصل ہوجاتی ہیں۔ یہی مطلب ہے کہ بغیر توشے کے خبریں معلوم ہوجایا کریں گی۔ اس شعر میں خود پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات مبارکہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ کا نبی دنیا اور آخرت کی ساری خبریں بلامعاوضہ تم تک پہنچائے گا۔ بہرحال حضور ﷺ کسی شاعر کا اچھا شعر تو زبان پر لے آتے تھے مگر خود شعر نہیں کہتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے شعر گوئی کا علم اپنے نبی کو سکھایا ہی نہیں اور نہ ہی یہ منصب نبوت کے شایان شان ہے۔ اس کے برخلاف آپ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ سراسر نصیحت پر مشتمل ہے۔ آپ حقیقت کے ترزجمان ہیں اور آپ کی بعثت کا ایک مقصد دنیا کو اعلیٰ حقائق سے روشناس کرانا بھی ہے۔ چنانچہ شعر و شاعری کے برخلاف پیغمبر اسلام نے اللہ کا کلام قرآن پاک پیش کیا اور اس کو پڑھ کر جو لوگ تیار ہوئے انہوں نے دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ شعر و شاعری تو نزول قرآن کے زمانہ میں بام عروج پر تھی مگر اس کا ماحصل کیا تھا ، کسی کی تعریف کے پل باندھ دیے تو کسی کی دی۔ الفاظ کے تانے بانے میں حقائق کو مسخ کیا اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کی۔ اس سے دنیا میں کوئی انقلاب تو نہیں آگیا تھا بلکہ لوگ مزید لہو و لعب میں پڑگئے۔ قرآن نے آکر زندگی کا مکمل پروگرام پیش کیا ، فلاح کے اصول ، اجتماعیت کاملہ ، نظم حکومت ، تجارت کے اصول ، سفر و حضر اور صلح و جنگ کے قوانین بتلائے۔ بداخلاقی کی بجائے اخلاق حسنہ دیے ، برائی کی بجائے نیکی کو رائج کیا ، دنیا کی بجائے آخرت کی طرف رخ پھیرا غرضیکہ زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی فرمائی۔ تو ایسے اعلیٰ اقدار کے حامل قرآن پاک کو شعر و شاعری جیسے جھوٹے اور مبالغہ امیز کلام سے کیا نسبت ہوسکتی ہے ؟ اسی لیے فرمایا کہ یہ قرآن شعر و شاعری نہیں بلکہ سراسر نصیحت اور کھول کر بیان کرنے والا کام ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہے لینذر من کان حیا تاکہ یہ ڈر سنائے اس شخص کو جو زندہ ہے۔ زندہ تو مومن ، کافر ، مشرک ، منافق سب ہیں مگر شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے (موضح القرآن ص 523) ہیں کہ زندہ کا مطلب یہ ہے کہ جس میں جان ہے یعنی وہ اپنے فائدے کے لیے نیکی کا اثر قبول کرسکتا ہے جو شخص نصیحت کا اثر ہی قبول نہیں کرتا اس کو ڈرانا کچھ مفید نہیں ہوسکتا جیسے سورة البقرہ کی ابتداء میں کافروں کے متعلق فرمایا سواء علیہم انذرتھم ام لم تنذرھم لا یومنون (آیت 6) ایسے لوگوں کو ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بہرحال زندہ سے مراد وہ قوم ، جماعت یا فرد ہے جس میں نیکی کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ فرمایا ویحق القول علی الکفرین اور تاکہ یہ بات کافروں پر ثابت ہوجائے۔ اللہ نے کفار پر اتمام حجت کے لیے اس کتاب قرآن پاک کو نازل فرمایا ہے تاکہ کوئی شخص کل کو یہ نہ کہہ سکے کہ میرے پاس تو کوئی کتاب نہیں آئی ، نہ کسی سمجھانے والے نے سمجھایا اور کسی نبی ، رسول یا اس کے نائب نے ڈرایا ان دو آیات میں قرآن پاک کی حقانیت و صداقت اور حضور نبی کریم (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کی گواہی بھی آگئی۔ مویشیوں کی پیدائش آگے اللہ نے اپنی قدرت کے کچھ دلائل بیان فرمائے ہیں ارشاد ہوتا ہے اولم یروانا خلقنا لھم کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے پیدا کئے ہیں مما عملت ایدینا جن کو ہمارے ہاتھوں نے بنایا ہے مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی تخلیق کا ذکر ہو رہا ہے اس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کام ہے اگر اس کو دست قدرت بھی مانیں تو اس سے مراد ایسے ہاتھ نہیں جیسے ہمارے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وہ ہاتھ مراد ہیں جو اس کی شان کے لائق ہیں۔ اللہ کے ہاتھوں کا ذکر بعض دوسرے مقامات پر بھی آیا ہے۔ بل یدہ مبسوطین (المائدہ 64) اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ حدیبیہ کے واقعہ میں جب صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے تو اللہ نے فرمایا ید اللہ فوق ایدیھم (الفتح 10) ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ تھا۔ غرضیکہ اللہ نے ہاتھوں کی نسبت اپنی طرف کی ہے مگر یہ انسانی ہاتھ کی طرح دائیں بائیں نہیں بلکہ جیسا اس کی شان کے لائق ہیں تو فرمایا کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جن کو ہمارے ہاتھوں نے بنایا اور وہ کیا چیز ہے انعاما وہ مویشی ہیں جن کے ساتھ تمہیں شب و روز واسطہ پڑتا ہے اور وہ تمہاری خدمت پر مامور ہیں۔ فرمایا یہ مویشی پیدا تو ہمارے دست قدرت نے کیے فھم لھا ملکون مگر ان کے مالک یہ لوگ ہیں۔ ہم نے حق ملکیت ان کو دے دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ پیدا کرنے والا بھی خدا تعالیٰ اور حقیقی مالک بھی وہی ہے کیونکہ مالک وہی ہوسکتا ہے جو کسی چیز کا خالق ہو مگر اس نے اپنی مہربانی سے ان کا عارضی مالک انسانوں کو بنا دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں ان سے خدمت لیں وگرنہ درحقیقت مالک ہر شے خدا است ایں امانت چند روزے نزد ما است اس حقیقت کو قرآن پاک میں جگہ جگہ واضح کیا گیا ہے للہ ما فی السموت وما فی الارض (البقرہ 284) ارض و سما کی ہر چیز اللہ ہی کے لیے ہے یعنی ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ آج کل سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے درمیان یہ بحث چل رہی ہے کہ اصل چیز سرمایہ ہے یا محنت۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت کے لوگ بضد ہیں کہ اصل چیز سرمایہ ہے۔ سرمایہ ہوگا تو محنت کے مواقع پیدا ہوں گے لہٰذا سرمایہ مقدم ہے دوسری طرف سوشلزم اور کمیونزم والے کہتے ہیں کہ سرمایہ محنت سے پیدا ہوتا ہے اگر محنت ہی نہیں ہے تو سرمایہ کہاں سے آئے گا لہٰذا وہ مزدوروں کے حقوق کو مقدم سمجھتے ہیں۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ کسی چیز کا مالک نہ سرمایہ دار ہے اور نہ محنت کش ، بلکہ مالک حقیقی خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو ہر چیز کا خالق ہے۔ انسانی ملکیت عارضی ہے اور اللہ کی عطا کردہ ہے۔ اللہ نے آزمائش کے لیے ملکیت ان کو عطا کی ہے۔ ان سے پہلے بھی وہی مالک تھا اور ان کے بعد بھی وہی مالک ہوگا۔ لہٰذا اس کے مقرر کردہ ضابطے کے مطابق عمل کرنا چاہئے تاکہ دنیا میں امن قائم رہے۔ فرمایا ہم نے مویشی پیدا کرکے انسانوں کی ملکیت میں دے دیئے وذللنھا لھم اور پھر ان مویشیوں کو انسانوں کے تابع کردیا۔ ہاتھی ، اونٹ ، گھوڑا ، گائے بھینسیں کتنے بڑے بڑے جانور ہیں جو انسانوں سے بیسوں گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ مگر اللہ نے ان کے طبائع میں یہ بات ڈال دی ہے کہ تمہیں انسان کی خدمت کرنا ہے۔ چناچہ وہ اتنے طاقتور ہونے کے باوجود انسان کے اشارے پر چلتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے ہیں جو انسان کو مطلوب ہوتا ہے۔ چناچہ فرمایا فمنھا رکوبھم بعض ان میں سے وہ ہیں جو انسانوں کے لیے سواری کا کام دیتے ہیں۔ ومنھا یاکلون اور ان میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔ دیکھ لیں گدھا ، خچر ، گھوڑا ، اونٹ وغیرہ سواری کا کام دیتے ہیں اور گائے ، بھینس ، بھیڑ ، بکری کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ فرمایا ولھم فیہا منافع ان جانوروں میں انسانوں کے لیے دیگر فوائد بھی ہیں۔ ان کے بال ، کھال ، ہڈیاں ، چربی ، گھی ، سینگ اور چمڑا تک انسانی ضروریات کا حصہ ہیں۔ جانوروں کا تو گوبر بھی ضائع نہیں جاتا۔ اس کو سکھا کر ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی کھال استعمال میں لائی جاتی ہے۔ اب تو توانائی پیدا کرنے کے لیے گوبر کے پلانٹ بھی لگ رہے ہیں ومشارب اور جانور انسانوں کے لیے پینے کے گھاٹ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تھنوں میں وافر دودھ پیدا کردیا ہے جو انسانی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے۔ فرمایا افلایشکرون اتنے فوائد حاصل کرنے کے باوجود بھی کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے ؟ امام بیہقی (رح) اور امام ترمذی (رح) نے حضرت ابو دردا ؓ سے حدیث (مظہری ص 98 ج 8) بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے کہ انسانوں اور جنوں کی حالت عجیب ہے اختن وبعبد غیری کہ پیدا میں کرتا ہوں مگر یہ عبادت دوسروں کی کرتے ہیں۔ نیز فرمایا نعمت میں دیتا ہوں مگر یہ شکریہ غیروں کا ادا کرتے ہیں ، انسانوں کی طرح جن بھی مختلف پارٹیوں اور فرقوں میں تقسیم ہیں اور وہ ناشکر گزاری کرتے ہیں الا ماشاء اللہ ، کفر ، شرک ، بدعقیدہ ناشکرگزاری ہی کا نتیجہ ہے۔ ظلم وتعدی ، معصیت سب ناشکرگزاری کا حصہ ہیں۔ اگر انسان اللہ کی نعمتوں کی قدر کرتے تو ناشکرگزار نہ بنتے۔ آگے اللہ نے شرک کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ واتخذوا من دون اللہ الھۃ انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ان سے مرادیں مانگتے ہیں ، ان کو نذر و نیاز پیش کرتے ہیں ، ان کو مافوق الاسباب پکارتے ہیں ان کے نام کی دھائی دیتے ہیں یہ سب مشرکانہ باتیں ہیں۔ کیونکہ خالق اور مالک تو میں ہوں اور معبود وہی ہوسکتا ہے جو خالق ہو۔ لہٰذا یہ غیروں کو معبود کیوں بناتے ہیں ؟ اور ایسا کرنے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے لعلھم ینصرون شاید کہ وہ مدد کیے جائیں۔ یہ معبود مشکل وقت میں ان کی مدد کو پہنچیں گے۔ فرمایا وہ بیچارے ان کی کیا مدد کریں گے۔ لا یستطیعون نصرھم وہ تو ان کی مدد کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے ان کی حالت تو یہ ہوگی وھم لھم جند محضرون یہ لوگ ان معبودوں کے لشکر ہوں گے ، ان سب کو پکڑ کر حاضر کیا جائے گا ، سب عابد اور معبود اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو اللہ پوچھے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے رہے۔ مگر کسی سے کوئی جواب بن نہیں آئے گا اور پھر عابد اور معبود ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے ، اسکی وضاحت اگلی سورة میں آرہی ہے۔ کافر اور مشرک لوگ پیغمبر اسلام اور آپ کے پیروکاروں کو سخت ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچاتے تھے۔ اللہ نے تسلی کے طور پر فرمایا فلا یحزنک فولھم ان کی باتیں آپ کو غم میں نہ ڈالیں انا نعلم ما یسرون وما یعلنون ہم خوب جانتے ہیں جس چیز کو یہ چھپاتے ہیں اور جس کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے علم سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، ہم ان کی نیت اور ارادے سے بھی واقف ہیں اور ظاہری حرکات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کی خفیہ منصوبہ بندیاں بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان کے نفاق کو ہم جانتے ہیں۔ نافرمانوں نے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا ، آپ غم نہ کریں بلکہ اپنا کام جاری رکھیں ، ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔
Top