Maarif-ul-Quran - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے نہیں سکھایا اس کو شعر کہنا اور یہ اس کے لائق نہیں یہ تو خاص نصیحت ہے اور قرآن ہے صاف
خلاصہ تفسیر
(اور یہ کفار جو نبوت کی نفی کرنے کے لئے آپ کو شاعر کہتے ہیں یہ محض باطل ہے کیونکہ) ہم نے آپ کو شاعری (یعنی خیالی مضامین مرتب کرنے کا) علم نہیں دیا اور وہ (شاعری) آپ کے شایان شان بھی نہیں وہ (یعنی آپ کو عطا کیا ہوا علم جس کو یہ لوگ شاعری کہتے ہیں وہ) تو محض نصیحت (کا مضمون) اور ایک آسمانی کتاب ہے جو احکام کی ظاہر کرنے والی ہے تاکہ (بیان احکام کے اثر سے) ایسے شخص کو (نافع ڈرانا) ڈرا دے جو (حیات قلبیہ کے اعتبار سے) زندہ ہو اور تاکہ کافروں پر (عذاب کی) حجت ثابت ہوجاوے۔ کیا ان (مشرک) لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے (نفع کے) لئے اپنے ہاتھ کی سوختہ چیزوں میں سے مواشی پیدا کئے اور (ہمارے مالک بنانے سے) یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں اور (آگے اس نفع کی کچھ تفصیل ہے کہ) ہم نے ان مواشی کو ان کا تابع بنادیا سو (وہ ان کے کام میں لانے سے کام دیتے ہیں چناچہ) ان میں بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کو وہ کھاتے ہیں اور ان میں ان لوگوں کے لئے اور بھی نفع ہیں (جیسے بال، کھال، ہڈی وغیرہ مختلف طریقوں سے استعمال میں آتے ہیں) اور (ان میں ان لوگوں کے) پینے کی چیزیں بھی ہیں (یعنی دودھ) سو کیا (اس پر بھی) یہ لوگ شکر نہیں کرتے (اور شکر کا سب سے مقدم اور اہم درجہ توحید پر ایمان ہے) اور انہوں نے (بجائے شکر اور توحید کے کفر اور شرک اختیار کر رکھا ہے چنانچہ) خدا کے سوا اور معبود قرار دے رکھے ہیں اس امید پر کہ ان کو (ان معبودین کی طرف سے) مدد ملے (لیکن) وہ ان کی کچھ مدد کر ہی نہیں سکتے اور (مدد تو کیا کرتے اور الٹے) وہ (معبودین) ان لوگوں کے حق میں ایک فریق (مخالف) ہوجاویں گے جو (موقف حساب میں بالا) حاضر کئے جائیں گے (اور وہاں حاضر ہو کر ان کی مخالفت کا اظہار کریں گے کماقال تعالیٰ فی سورة مریم (آیت) ویکونون علیہم ضداً وقال تعالیٰ فی سورة یونس (آیت) قال شرکاءھم ماکنتم ایانا تعبدون وغیر ذلک من الآیت)

معارف و مسائل
(آیت) وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ، چونکہ منکرین نبوت و رسالت قرآن کی تاثیرات عجیبہ اور دلوں پر اثر انداز ہونے کی کیفیت کا جو عام مشاہدہ میں تھی انکار نہیں کرسکتے تھے، اس لئے کبھی تو اس کلام الٰہی کو سحر اور آنحضرت محمد ﷺ کو ساحر کہتے تھے اور کبھی اس کلام کو شعر اور آپ کو شاعر کہہ کر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ تاثرات عجیبہ کلام الہٰی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ یا تو یہ جادو کے کلمات ہیں جو دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں یا شاعرانہ کلام ہے وہ بھی عام دلوں پر اثر انداز ہوا کرتا ہے۔
حق تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں فرمایا کہ ہم نے نبی کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور ان کی شان کے مناسب تھی، آپ کو شاعر کہنا باطل اور غلط ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرب تو وہ قوم ہے جس کی فطرت میں شعر و شاعری پڑی ہوئی ہے، عورتیں بچے بےساختہ شعر کہتے ہیں، وہ شعر کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں، انہوں نے قرآن کو شعر اور رسول اللہ ﷺ کو شاعر کس اعتبار سے کہا ؟ کیونکہ نہ تو قرآن وزن شعری کا پابند ہے نہ کہیں ردیف قافیہ کا، اس کو تو جاہل شعر و شاعری سے ناواقف بھی شعر نہیں کہہ سکتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شعر دراصل خیالی خود ساختہ مضامین کو کہا جاتا ہے خواہ نظم میں ہوں یا نثر میں۔ ان کا مقصد قرآن کو شعر اور آنحضرت محمد ﷺ کو شاعر کہنے سے یہ تھا کہ آپ جو کلام لائے ہیں وہ محض خیالی افسانے ہیں یا پھر شعر کے معنی معروف کے اعتبار سے شاعر کہا تو اس مناسبت سے کہ جس طرح نظم اور شعر خاص اثر رکھتا ہے اس کا اثر بھی ایسا ہی ہے۔
امام جصاص نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کبھی کوئی شعر پڑھتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، البتہ ایک شعر ابن طرفہ کا آپ نے پڑھا تھا
ستبدی لک الایام ماکنت جاھلاً
ویاتیک بالاخبار من لم تزود
اس کو آپ نے وزن شعری کو توڑ کر من لم تزود بالاخبار پڑھا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شعر اس طرح نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میں شاعر نہیں اور نہ میرے لئے شعر و شاعری مناسب ہے۔
یہی روایت ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کی ہے اور ترمذی، نسائی، امام احمد نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خود کوئی شعر تصنیف کرنا تو کیا آپ دوسروں کے اشعار بھی پڑھنے کو اپنے لئے مناسب نہ سمجھتے تھے۔ اور بعض روایات میں جو خود حضور ﷺ سے وزن شعری کے مطابق کچھ کلمات منقول ہیں وہ بقصد شعر نہیں، اتفاقی ہیں اور ایسے اتفاقی کوئی ایک دو شعر موزوں ہوجانے سے کوئی آدمی شاعر نہیں کہلاتا۔ مگر آنحضرت محمد ﷺ کے اس فطری حال سے جو بڑی حکمتوں پر مبنی تھا یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً شعر گوئی مذموم ہے جیسا کہ شعر و شاعری کے احکام کی تفصیل سورة شعراء کے آخری رکوع میں گزر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔
Top