Baseerat-e-Quran - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے ان کو ( نبی کریم ﷺ کو) شعر نہیں سکھایا کیونکہ وہ ان کی شان کے مطابق نہ تھا ۔ یہ ( قرآن) تو ایک نصیحت ہے اور واضح قرآن ہے
لغات القرآن آیت نمبر 69 تا 83 :۔ ما ینغبی ( شان نہ تھی ، لائق نہ تھا) یحق ( ثابت ہوتا ہے) ذللنا ( ہم نے ذلیل کردیا ، تابع کردیا) رکوب ( سواریاں) مشارب (پینے کی جگہ) جند ( لشکر) خصیم ( جھگڑے والا) نسی ( بھول گیا) العظام ( عظم) (ہڈیاں) رمیم ( گلی سڑی) الاخضر (ہرا ، بھرا) توقدون (تم سلگاتے ہو) ملکوت (سلطنتیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 69 تا 83 :۔ قرآن کریم کے اعلیٰ اور بلند تر وہ مضامین جو دنیا اور آخرت میں انسانوں کی بھلائی نصیحت اور خیر خواہی کا ذریعہ ہیں جب ان کی تلاوت کی جاتی تو سننے والے کے دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ جاتیں۔ قرآنی آیات ہر ایک کو اپنی طرف اس طرح کھینچتی ہیں جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ اور دوسری طرف نبی کریم ﷺ کی مقناطیسی شخصیت نے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ سردار ان قریش اور کفار و مشرکین اس صورت حال سے سخت پریشان تھے کیونکہ ہر ایک قبیلے اور خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دین اسلام کی سچائیوں کو قبول کر کے ہر طرح کی قربانیاں پیش کر رہا تھا ۔ ابتداء میں انہوں نے آپ کا مذاق اڑایا جب اس سے کام نہ چلا تو نبی مکرم ﷺ کو شاعر ، ساحر ، کاہن اور دیوانہ و مجنوں مشہور کرنا شروع کیا اور قرآن کریم کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اس کو شاعرانہ کلام کہا جانے لگا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ ایک شاعر ہیں انہوں نے اپنی طرف سے ایک کلام گھڑ کر اس کو اللہ کی طرف سے منسوب کردیا ہے۔ عرب معاشرہ میں اگرچہ شعر و شاعری کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی لیکن قرآن کو شاعرانہ کلام کہنے سے ان کی مراد یہ تھی کہ جس طرح ایک شاعر من گھڑت خیالات اور باتوں کو شعر میں ڈھال کر اس سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے یہ کلام بھی اسی طرح کے من گھڑت اور بےحقیقت باتوں کا مجموعہ ہے ( نعوذ باللہ ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بےتکی اور جاہلانہ باتوں کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مکہ والو ! تم تو ان کی زندگی سے اچھی طرح واقف ہو کہ وہ نہ تو شاعر ہیں نہ شعروں سے ان کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے۔ فرمایا کہ نہ ہم نے ان کو شعر و شاعری سکھائی اور نہ آپ کے اعلیٰ رتبے اور مقام کے یہ شایان شان ہے بلکہ آپ اللہ کی طرف سے حق و صداقت کے ترجمان ہیں ۔ آپ کی بعثت کا مقصد ساری دنیا کے بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کی بےتکی باتوں اور غیر سنجیدہ حرکتوں سے رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اللہ کے دیئے ہوئے پیغام حق و صداقت کو لوگوں تک پہنچاتے رہیے جو لوگ زندہ ہیں یعنی سوچنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس با وقار اور سنجیدہ کلام کو سن کر اللہ کی طرف رجوع کریں گے اور جو زندہ ہوتے ہوئے بھی مردوں سے بد تر ہیں وہ اپنے برے انجام تک پہنچ کر رہیں گے ۔ فرمایا کہ یہ قرآن کریم اور اس کی تعلیمات تو من گھڑت اور شعر و شاعری نہیں ہے البتہ کفار و مشرکین نے جن بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور ان سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں ان کے کام نہ آئیں گے اور نہ آخرت میں ان کی مدد کریں گے۔ یہ ان کے من گھڑت اور بےبنیاد خیالات ہیں جو ان کی دنیا اور آخرت کو تباہ کر رہے ہیں ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسی ایک اللہ کے دست قدرت کا کرشمہ ہے۔ اللہ نے مویشوں کو بنا کر اس طرح لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا ہے کہ وہ ان سے جس طرح چاہتے ہیں کام لیتے ہیں ایک جانور جو بہت بڑا اور انتہائی طاقت و قوت والا ہے جیسے ہاتھی ، اونٹ ، گھوڑا ، گائے ، بیل وغیرہ اس کو انسان کے بس میں دے کر کیسا تابع کردیا ہے کہ وہ اس پر سواری بھی کرتا ہے بعض حلال جانوروں کو وہ ذبح کر کے کھاتا ہے اور ان سے طرح طرح کے کام لیتا ہے اور بہت سا نفع حاصل کرتا ہے۔ یہ تو وہ نعمتیں ہیں جن پر انسان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن انسان کی یہ کتنی بڑی بھول ہے کہ وہ اپنے اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو اس امید پر معبود بنائے بیٹھا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد کریں گے حالانکہ وہ دنیا اور آخرت میں اس کے کسی کام نہ آئیں گے۔ وہ جھوٹے معبود تو اپنے ماننے اور عبادت کرنے والوں کے ہاتھوں اس طرح مجبور ہیں کہ اگر ان کو کوئی بنانے والا نہ ہو تو خود بن نہیں سکتے اور کوئی ان کو توڑ پھوڑ دے تو وہ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے۔ یہ گروہ بن کر اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو اس وقت ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے اے نبی ﷺ ! یہ لوگ اتنے نا شکرے ہیں کہ اللہ کی ہزاروں نعمتیں ملنے کے باوجود اس کا شکر ادا نہیں کرتے وہ آپ کی قدر کیا کریں گے ۔ اگر یہ آپ کی بات نہیں سنتے اور آپ پر طرح طرح کے بےت کے الزامات لگاتے ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ یہ تو اس بات کو بھی بھول چکے ہیں کہ ہم نے ان کو ایک حقیر بوند ( نطفہ) سے پیدا کر کے زندگی کی قوت و طاقت عطاء کی اب وہ لوگ اللہ پر مثالیں چست کر کے اللہ کے منہ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا کی ہڈیاں بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گی تو کس طرح ان بےجان ہڈیوں میں جان ڈال کر انسان کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ اتنی بات پر غور نہیں کرتے کہ جس اللہ نے آدمی کو اور اس کی ہڈیوں اور جسم کو پہلی مرتبہ بنایا تھا کیا وہ دوبارہ ان ہڈیوں کو جمع کر کے انسان ڈھانچہ بنا کر اس میں روح نہیں ڈا ل سکتا ۔ کسی چیز کو پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن دوسری مرتبہ ایسا ہی بنا دینا کیا مشکل ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ہزاروں نظارے روزانہ ان کی نظروں میں آتے ہیں مگر وہ ان پر غور و فکر نہیں کرتے۔ اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ہرے اور سر سبز درختوں سے اللہ آگ کو پیدا کرتا ہے حالانکہ آگ اور پانی ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن اللہ ان ہی ہرے بھرے اور پانی سے بھر پور درختوں سے آگ پیدا کرتا ہے جس سے وہ اپنے کھانے پینے کی چیزیں بنا یا کرتے ہیں وہی ان تمام چیزوں کا خالق ومالک اور ہر بات کا پوری طرح علم رکھنے والا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے اس دنیا میں یہ قانون بنا رکھا ہے کہ ہر کام درجہ بدرجہ اور مناسب آہستگی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کو کسی کام کے کرنے میں دنیاوی اسباب اور ذرائع کی ضرورت اور محتاجی نہیں ہے وہ تو جس کام کو کرنا چاہتا ہے صرف ” کن “ ( ہوجا) کہتا ہے اور وہ چیز وجود اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی با عظمت اور صاحب اختیار ہستی صرف اللہ کی ہے اور وہ ہر چیز کا مالک حقیقی ہے اور ساری مخلوق کو ایک دن اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جہاں ہر ایک کو جزا یا سزا دی جائے گی ۔ مذکورہ آیات کی مزید وضاحت کے لئے چند باتیں ٭اللہ نے ہر چیز کو اپنے دست قدرت سے بنایا ہے۔ بیان یہ کرتا ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے کی تخلیق اس کے دست قدرت کا شاہکار ہے جس کو اس نے انسانی ضروریات کے لئے بنایا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ جسم اور جسمانیت سے پاک ہے ہاتھ سے مراد اس کی طاقت و قوت ہے۔ ٭فرمایا کہ یہ جھوٹے اور من گھڑت مٹی ، پتھر اور لکڑی کے بت جن سے لوگوں نے امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ اپنے وجود میں اپنے ماننے والوں کے محتاج ہیں ۔ اگر یہ خوش عقیدہ لوگ ان بتوں کو اپنے ہاتھ سے نہ بنائیں تو دنیا میں ان کا وجود ہی نہ ہوتا ۔ ایسے معبودوں سے امیدیں باندھنا اور ان کو اپنا مالک و رازق سمجھنا انسان اور انسانیت کی سب سے بڑی ذلت و رسوائی ہے۔ ٭اللہ کی قدرت سے کوئی کیسے انکار کرسکتا ہے کیونکہ اس نے کائنات میں دو متضاد چیزوں کو پیدا کر کے ان سے وہ کام لیا ہے جس کو انسان سوچ بھی نہیں سکتا ۔ مثلاً ہرے اور سبز درختوں سے آگ کا پیدا ہونا ، عرب میں دو درخت بہت مشہور تھے مرخ اور عفار ۔ عرب کے لوگ ان دونوں درختوں کی شاخوں کو کاٹ لیتے تھے جو تازہ پانی سے بھری ہوئی ہوتی تھیں لیکن جب وہ ایک دوسرے پر رگڑتے تو ان سے آگ جھڑنا شروع ہوجاتی تھی جس کو سوکھی لکڑیوں میں لگا کر آگ پیدا کرتے اور اس پر اپنے کھانے پکایا کرتے تھے ۔ اسی طرح برصغیر میں بانس کے ہرے درختوں سے بھی آگ پیدا ہوتی تھی۔ یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے اگر وہ ہرے درختوں سے آگ پیدا کرسکتا ہے تو وہ مردہ ہڈیوں میں جان کیوں نہیں ڈال سکتا۔ ٭فرمایا کہ اگرچہ اللہ کا نظام ہے ہر چیز ایک قانون کے تحت چلتی اور بنتی ہے اور اللہ نے انسان کو بھی بہت سی چیزیں بنانے کی صلاحیت عطاء کی ہے وہ اسباب اور ذرائع سے اپنی من پسند چیزیں بناتا ہے لیکن اللہ کی قدرت یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ انسانوں کی طرح اسباب کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ ” کن “ کہتا ہے اور وہ چیز وجود اختیار کرلیتی ہے۔ اس پوری کائنات میں سارا اختیار و اقتدار اللہ ہی کے لئے ہے۔ الحمد اللہ ان آیت کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ہی سورة یٰسین کا ترجمہ و تشریح تکمیل تک پہنچا ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
Top