Ruh-ul-Quran - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے (اپنے نبی کو) شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور یہ اس کو زیب بھی نہیں دیتی، یہ تو ایک یاد دہانی ہے اور نہایت واضح قرآن ہے
وَمَا عَلَّمْنٰـہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَـہٗ ط اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌوَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ۔ لِّـیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّاوَّیَحِقَّ الْقُوْلُ عَلَی الْـکٰفِرِیْنَ ۔ (یٰسٓ: 69، 70) (اور ہم نے (اپنے نبی کو) شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور یہ اس کو زیب بھی نہیں دیتی، یہ تو ایک یاد دہانی ہے اور نہایت واضح قرآن ہے۔ تاکہ ان لوگوں کو خبردار کردے جن کے اندر زندگی ہے اور کافروں پر حجت تمام ہوجائے۔ ) ہم پہلی آیت کی تشریح میں کچھ کہنے کی بجائے وہ تصریحات نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں جو سورة الشعراء کی آیات 224 تا 227 کی تشریح کے ضمن میں لکھوا چکے ہیں۔ آنحضرت ﷺ پر شاعر ہونے کے الزام کی تردید مخالفین جس طرح آنحضرت ﷺ کو کاہن قرار دیتے تھے اور جس کی تردیدہم گزشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں، اسی طرح وہ آپ ﷺ کو شاعر بھی قرار دیتے تھے حالانکہ ان کا وہ بالائی طبقہ جو شعرفہمی میں ایک مقام رکھتا تھا اس نے کبھی آنحضرت ﷺ کو شاعر قرار نہیں دیا اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا قرآن کریم شعر کی زبان میں نازل ہوا ہے تو وہ اسے شعر کہنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ البتہ جس بات نے انہیں مجبور کیا کہ قرآن کریم کو شاعری کی کتاب اور آنحضرت ﷺ کو ایک شاعر قرار دیں وہ یہ بات تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر قرآن کریم کو پیش کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کیونکہ مجھ پر قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی کتاب نازل ہوئی ہے۔ اور پھر قرآن کریم کے اعجاز کو قرآن اور اپنی حقانیت کی دلیل ٹھہرایا اور چیلنج کیا کہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں سمجھتے تو پھر اس کی مثال لا کر دکھائو۔ تو اب ان کے لیے آنحضرت ﷺ کی نبوت سے انکار کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی تھی کہ وہ قرآن کریم کے اعجاز اور اس کی فصاحت و بلاغت کو شعر کا نتیجہ قرار دیں اور آنحضرت ﷺ کو شاعر ثابت کریں۔ اور لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ تم جس کتاب کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے اسے آسمانی کلام ماننے پر مجبور ہورہے ہو اس کی یہ فصاحت و بلاغت کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں شاعروں کے کلام میں نظر آتی ہے۔ اس لیے محمد ﷺ پیغمبر نہیں بلکہ شاعر ہیں۔ البتہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ قرآن کریم میں جو فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اس کا جواب کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ سب سے بڑے شاعر ہیں، لیکن یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ اس قرآن کی دلیل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو شاعر قرار دے کر وہ ایک اور پہلو سے بھی آپ ﷺ کی نبوت کے بارے میں لوگوں میں بدگمانیاں پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ کہ شاعروں کے بارے میں عام طور پر اہل عرب یہ تصور رکھتے تھے کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اس کو شعر الہام کرتا ہے۔ تو محمد ﷺ چونکہ ایک شاعر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایک جن لگا ہوا ہے جو ان پر خوبصورت کلام القاء کرتا ہے۔ محمد ﷺ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ کوئی فرشتہ ہے حالانکہ یہ ویسا ہی جن ہے جیسا ہر بڑے شاعر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے پیش نظر آیات کریمہ میں تین کسوٹیاں رکھ دی ہیں جس پر پرکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کسی شاعر کا کلام ہے یا کلام ربانی ہے۔ اور اس کا سنانے والا کوئی شاعر ہے یا اللہ تعالیٰ کا رسول۔ فیصلہ کن تین کسوٹیاں پہلی کسوٹی یہ پیش کی گئی ہے کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح کوئی کلام بھی اس بات سے پہچانا جاتا ہے کہ اس نے اپنے زیراثر لوگوں کو کس طرح کی سیرت و کردار سے آراستہ کیا ہے اور اس کے پڑھنے اور سننے والے اپنے اندر کیسے خصائل رکھتے ہیں۔ شعراء اور ان کا کلام آپ کے سامنے ہے اور ان کے پڑھنے والوں کی زندگیاں بھی آپ کے گردوپیش میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح محمد ﷺ نے جن لوگوں کو اپنی تعلیم و تربیت سے جس رنگ میں رنگا ہے، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ دونوں کا تقابل کرکے دیکھ لو۔ اگر تو دونوں کی زندگیوں کا رنگ ایک جیسا ہے، ان کے طوراطوار یکساں ہیں، ان کے اہداف ملتے جلتے ہیں، ان کے اعمال ایک دوسرے سے مشابہ ہیں، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی دونوں شاعر ہیں اور دونوں کا کلام یکساں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف انتہائی سنجیدگی، تہذیب، شرافت، راست بازی اور خدا ترسی ہے، بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے، برتائو میں لوگوں کے حقوق کا پاس ولحاظ ہے، معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے۔ اور دوسری طرف شعراء کے ساتھی گمراہ، اوباش، عیاش اور شرپسند قسم کے لوگ ہیں جن کی زندگیاں فسق و فجور سے عبارت ہیں، جن کا سب سے بڑا ہدف عشق بازی اور شراب نوشی ہے اور جن کی دلچسپیاں حسن پرستی، شہوانیت اور جنسی مواصلت کے گرد گھومتی ہیں، جنھوں نے قوم کو اتفاق و اتحاد کی دولت دینے کی بجائے ہمیشہ بکر و تغلب کی لڑائیوں جیسے فسادات میں مبتلا کیا ہے، جو اخلاق کی بندشوں سے آزاد، جذبات و خواہشات کی رو میں بہنے والے اور لطف و لذت کے پرستار، نیم حیوان قسم کے لوگ ہیں جن کے ذہن کو کبھی یہ خیال چھو کر بھی نہیں گیا کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کا کوئی بلند تر نصب العین بھی ہے۔ تو ان دونوں کرداروں کو دیکھ کر اور زندگی کے ان دو نمونوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دونوں نمونے یکساں ہیں اور جس کلام کے زیراثر یہ دو الگ الگ نمونے تیار ہوئے ہیں اس کلام کا منبع ومصدر ایک ہی ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری کسوٹی جس پر پرکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کا پیش کرنے والا اللہ تعالیٰ کا رسول ہے یا وہ ایک عظیم شاعر اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے۔ یہ ہے کہ ان شاعروں کا حال یہ ہے کہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی ان کا توسن فکر ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ ان کے فکر کی کوئی بنیاد نہیں۔ جس طرح ہر درخت اپنی جڑ سے پھوٹتا ہے، آہستہ آہستہ تنا بنتا ہے، پھر اس سے شاخیں پھوٹتی ہیں اور برگ و بار لاتا ہے لیکن وہ اپنی جڑ سے کبھی بےنیاز نہیں ہوتا اور نہ اس کے پھل اس کی حقیقت سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ یہی حال انسان کا بھی ہے کہ اگر اس کے عقائد متعین ہیں، اس کی سوچ کا راستہ مقرر ہے، اس کی منزل طے شدہ ہے، اس کے اہداف واضح ہیں وہ ایک طرح کے طوراطوار اور خصائل و شمائل کو پیدا کرتا ہے۔ اس کے افراد میں کتنی بھی وسعت پیدا ہوجائے، اس کے معاملات کی پختگی، اس کی معاشرت کی شائستگی اور اس کے اخلاق کے پیمانوں میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ قرآن کریم دل و دماغ کو ایک متعین فکر فراہم کرتا ہے۔ وہ انسان کو صراط مستقیم پر چلاتا ہے، ایمان و عمل اس کی پہچان بن جاتی ہے، خدا ترسی، ہمدردی و غمگساری سے انسانی معاملات میں شائستگی پیدا کرتا ہے۔ گہری نظر سے دیکھنے والا اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ معاشرہ اپنی ایک جڑ رکھتا ہے، یہ قبیلہ اپنا ایک نسب رکھتا ہے، اس کی دنیا متعین آداب سے عبارت ہے جبکہ شعراء کے یہاں کوئی متعین راستہ نہیں، کوئی فکری نظام نہیں، جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے، ان کے جہاز کا لنگر کسی چٹان سے بندھا ہوا نہیں، ان کے خیالات کی کشتیاں طبیعت سے اٹھنے والی لہروں کے ساتھ اپنا راستہ بدلتی رہتی ہیں، ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں، دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہوگیا، جس کو چاہا آسمان پر چڑھا دیا، جسے چاہا قعرمذلت میں گرا دیا، خدا پرستی اور دہریت، مادہ پرستی اور روحانیت، حسن اخلاق اور بداخلاقی، پاکیزگی اور گندگی، سنجیدگی اور ہزل قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو در پہلو ملے گا۔ آپ کسی شاعر کو پڑھتے ہوئے کبھی یہ محسوس کریں گے کہ میں ایک شیطان کو پڑھ رہا ہوں، اور کبھی یوں محسوس ہوگا کہ میں کسی روحانی رہنما کو پڑھ رہا ہوں۔ انہیں ایسی باتیں کہتے ہوئے کبھی کسی روک کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے ہیں جو نہ بادہ خوار ہوتا ایسے عظیم دو فرقوں کے حامل کلاموں کو اگر کوئی شخص ایک کہتا ہے یا دونوں کو ایک ہی نام دیتا ہے تو یہ ایک ایسی جسارت ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تیسری کسوٹی ہے جس پر قرآن کریم اور شعراء کے کلام کو پرکھا جاسکتا ہے کہ شاعر گفتار کے غازی ہوتے ہیں۔ کردار سے انہیں کوئی خاص نسبت نہیں ہوتی۔ ان کے دعوئوں کو دیکھو تو ہر میدان کے لاجواب آدمی معلوم ہوتے ہیں، لیکن عمل کی دنیا میں دیکھو تو بالکل صفردکھائی دیتے ہیں۔ جن مکارمِ اخلاق کی تعریف میں وہ آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس پیغمبر کو دیکھو کہ وہ جو کلام پیش کررہے ہیں اس کا سب سے بڑا عملی نمونہ وہ خود ہیں۔ آپ کا جاننے والا ہر شخص گواہی دیتا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہی کہتے ہیں۔ آپ کے قول و فعل کی مطابقت ایسی صریح حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہ کرسکتا تھا۔ آپ نے جس بندگیِ رب، جن مکارمِ اخلاق اور جس ایثار و قربانی کی دعوت مخلوق کو دی اس پر سب سے زیادہ عمل خود کرکے دکھایا۔ تو ایسے قدسی صفات شخص کو ان شاعروں کی صف میں کھڑا کرنا جن کے اقوال و اعمال میں ادنیٰ مطابقت بھی نہیں ہے، بہت بڑی زیادتی ہے۔ ایک ضروری بات ان آیات کو پڑھتے ہوئے ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کریم کی تنقید دورجا ہلیت کے شعراء پر ہے شعر یا فنِ شعر پر نہیں۔ قرآن کریم اور آپ نے اس دور کے شعراء پر تنقید اس لیے کی ہے کہ ان کی شاعری جن مضامین سے لبریز تھی اسلام انہیں برائیوں، گمراہیوں اور بداخلاقیوں سے روکنے کے لیے آیا تھا۔ شعر دور جاہلیت میں اہل عرب میں ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ایک موثر شاعر اپنی شاعری سے بعض دفعہ قوم میں آگ لگا دیتا تھا اور اس کے اشعار کے اثر سے لوگوں کے تنِ مردہ میں زندگی کا خون دوڑنے لگتا تھا۔ چناچہ ایسا موثر ذریعہ ٔ ابلاغ اگر برائی کی ترویج کے لیے وقف ہو کر رہ جائے تو اس سے بڑی نقصان دہ چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اور اس دور کے شعراء نے اتنی موثر صلاحیت کو جن باتوں کے لیے وقف کر رکھا تھا ان کی حیثیت انسانیت کے لیے سم قاتل سے کم نہ تھی۔ ان کی شاعری کے بیشتر مضامین شہوانیت، عشق بازی، شراب نوشی یا قبائلی منافرت، جنگ و جدل یا نسلی فخر و غرور پر مشتمل تھے۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں کہیں خال خال پائی جاتی تھیں۔ چونکہ وہ لوگ فضائلِ اخلاق سے بہت حد تک تہی دامن ہوچکے تھے اس لیے ان کی شاعری جھوٹ، بہتان، ہجو، بےجا تعریف، طعن وتشنیع، مشرکانہ خیالات اور قبائلی تفاخر میں محصور ہو کر رہ گئی تھی۔ اور شاعری کی تأثیر کی وجہ سے یہ عیوب ان کی سیرت و کردار کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی شاعری اور ایسے شاعروں کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کبھی تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھ سکتے تھے بلکہ اس کو یکسر بدل ڈالنا یا ختم کردینا ان کے مشن کا بنیادی جز تھا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ایسی ہی شاعری کے بارے میں فرمایا : لَاَنْ یَّمْتَلِیَٔ جَوْفُ اَحْدِکُمْ قَیْحًا خَیْرٌلَـہٗ مِنْ اَنْ یَّمْتَلِیَٔ شَعْراً ۔ ” تم میں سے کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جائے، اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے۔ “ ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ یہ بات کسی حد تک مسلمہ ہے کہ مبالغہ شعر کا ایک لازمی وصف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شعر میں اگر مبالغہ نہ ہو تو اس میں شعریت یا شعری حسن پیدا نہیں ہوتا۔ اور ادھر حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی دنیا میں اظہارِ حقیقت اور راست گوئی کا نمونہ بن کر آتا ہے۔ وہ اگر تعریف کرتا ہے تو حقیقت سے آگے نہیں بڑھتا اور اگر کسی پر تنقید کرتا ہے تو صداقت سے نیچے نہیں گرتا۔ اس کی ذات، اس کی ہر بات اور اس کا ہر عمل انسانوں کے لیے میزان کی حیثیت رکھتا ہے جس کا کوئی پلڑا نہ اٹھتا ہے اور نہ جھکتا ہے۔ اسی لیے اس کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ اس تقابل کو دیکھ کر بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو شعر سے مناسبت کیوں نہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شعر گوئی کی صلاحیت کیوں نہ عطا فرمائی۔ سورة یٰسین میں پروردگار نے اس کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے فرمایا وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَایَنْبَغِیْ لَـہٗ ” ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شعر سے دلچسپی نہ تھی۔ دورانِ گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیرموزوں پڑھ جاتے تھے یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہوجاتا۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دورانِ تقریر میں آپ ﷺ نے شاعر کا مصرع یوں نقل کیا : کفی بالاسلام والشیب للمرء ناھیا حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے عرض کیا، یارسول اللہ ! اصل مصرع یوں ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا اور بھی اس طرح کی کئی مثالیں روایات میں موجود ہیں۔ ایسے موقعوں پر حضرت ابوبکر صدیق ( رض) عام طور پر عرض کرتے، یارسول اللہ ! شعر اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے۔ تو آپ ﷺ فرماتے کہ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ نے اچھے اشعار کو ہمیشہ پسند فرمایا، اور اچھے شعراء کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی۔ اور آپ ﷺ نے یہ اصولی بات فرمائی : حسن الشعرکحسن الکلام قبیحہ کقبیح الکلام ” اچھا شعر اچھے کلام کی طرح ہے اور برا شعر برے کلام کی طرح ہے۔ “ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان من الشعر لحکمۃ ” بعض اشعار میں بڑی دانائی کی باتیں ہوتی ہیں۔ “ اِلاَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِمَاظُلِمُوْا ط وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ۔ ” بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے جنھوں نے نیک اعمال کیے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا، اور انھوں نے بدلہ لیا اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور عنقریب جان لیں گے جنھوں نے ظلم و ستم کیے کہ ان کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے۔ “ شانِ نزول شعراء پر تنقیدی آیات کے نزول کے بعد حضرت حسان ابن ثابت ( رض) ، عبداللہ بن رواحہ ( رض) ، کعب بن مالک ( رض) اور کعب بن زہیر ( رض) روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یارسول اللہ ! شاعروں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل کی ہیں، ہم بھی تو شاعر ہیں، ہم تو ہلاک ہوگئے، ہماری نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پیش نظر آیت کریمہ نازل فرمائی۔ اس میں ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہیں۔ چار خصوصیات کے حامل شعراء کا استثناء جن میں پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مومن ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی شاعری کا ایک ہدف متعین ہوجائے گا۔ خیالات کی ہر لہر کے ساتھ شعر گوئی کی قوت حرکت میں نہیں آئے گی بلکہ ان کا ہر شعر کلمہ حق کی حمایت اور ذکرالٰہی کی سربلندی میں کام آئے گا۔ وہ دل و دماغ اور اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور امانت سمجھیں گے۔ انہیں اس بات کا یقین ہوگا کہ میری زبان سے جو شعر نکلے گا وہ قیامت کے دن میزان کا تول بنے گا اور مجھے اس کا جواب دینا ہوگا۔ اور پھر میرے شعر کی تاثیر سے جو اثرات مرتب ہوں گے مجھے اس کی ذمہ داری کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کی دولت سے بھی مالامال ہوں گے۔ وہ ایمان لاکر چونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی غیرمشروط اطاعت کا عہد کرچکے ہیں، اس لیے ان کی پوری زندگی تقویٰ اور عمل صالح سے عبارت ہوگی۔ وہ فسق و فجور کا نہ ارتکاب کریں گے اور نہ ان کے اشعار فسق کی تبلیغ سے آلودہ ہوں گے۔ وہ ان تمام اخلاقی بندشوں کو اپنے اخلاق کی زنجیر بنادیں گے جنھیں شریعت نے ان پر لازم کیا ہے۔ اور انہیں مکارمِ اخلاق کو وہ اپنے شعر کی قوت سے لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنے کی کوشش کریں گے۔ تیسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد کریں گے۔ اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی اور اپنے کلام میں بھی۔ ان کی زندگی ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی اور ایک ہی طرزعمل سے عبارت ہوگی۔ ان کی شاعری میں انہیں چیزوں کا اظہار ہوگا جو اسلامی تعلیمات نے ان کے حوالے کی ہیں اور ان کی زندگی میں وہی چیزیں چلتی پھرتی دکھائی دیں گی جن کا وہ اپنی شاعری میں اظہار کریں گے۔ ان کی زندگی میں ثنویت نہیں ہوگی کہ شخصی زندگی تو زہدوتقویٰ سے آراستہ ہو لیکن کلام سراسر رند و ہوسنا کی سے لبریز ہو۔ جیسے ہمارے یہاں بعض ایسے محترم شاعر گزرے ہیں جنھوں نے شراب خانہ خراب کو کبھی منہ نہیں لگایا، لیکن ان کی شاعری میں شراب کا استعمال اس کثرت سے ہوا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے بڑا بادہ خوار کوئی نہیں ہوگا۔ اور ان کی زندگی کا یہ رنگ بھی نہیں ہوگا کہ وہ شعر میں بڑی حکمت و معرفت کی باتیں کریں اور ایسا لگے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کا ان سے بڑھ کر مبلغ کوئی نہیں، مگر ان کی ذاتی زندگی کو دیکھیے تو اس میں یاد خدا کے آثار تک نظر نہ آئیں۔ اسلام جس طرح اپنے ماننے والوں کو متعین اہداف دیتا ہے، اسی طرح انہیں اسی منزل کا مسافر بھی بناتا ہے، ان کی تمام زندگی کا سفر اسلام ہی کی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ نہ کبھی منزل بدلتی ہے اور نہ کبھی سفر کی جہت تبدیل ہوتی ہے۔ یہ یکسانی اور یک رنگی ان شاعروں کی خصوصیت ہے جن کا یہاں ذکر فرمایا جارہا ہے۔ چوتھی خصوصیت ان شعراء کی یہ ہے کہ چونکہ ان کے جذبات و احساسات بھی اسلام کا رنگ اختیار کرچکے ہیں، ان کو اسی بات پر غصہ آتا ہے جو اسلام کی نگاہ میں بری ہے اور اسی بات پر خوشی ہوتی ہے جو اسلام کی نگاہ میں اچھی ہے۔ ان کا دادودہش اسلام کے حوالے سے ہوتا ہے اور ان کا انتقام اور انتصار بھی اسلام ہی کے حوالے سے متشکل ہوتا ہے۔ وہ اگر کسی کی تعریف کرتے ہیں تو اسلام کی خاطر اور کسی کی ہجو کہتے ہیں تو اسلام کی خاطر۔ چناچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام ( رض) جو تمام ذاتی، نسلی اور قومی عصبیتوں سے ہاتھ اٹھا چکے تھے، اب ان کا بالکل یہ حال ہوگیا تھا جس کی تصویر حالی نے کھینچی ہے : بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی شریعت کے قبضے میں تھی باگ ان کی جہاں کردیا نرم، نرما گئے وہ جہاں کردیا گرم، گرما گئے وہ مسلمان شعراء کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ وہ اپنی تمام تر طلاقتِ لسانی اور شعری مہارت کے باوجود اپنی اس صلاحیت کو کبھی شخصی اغراض کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب ان پر کوئی ظلم کرتا یا نسلی یا قومی عصبیتوں کی آگ بھڑکاتا یا آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا یا اسلامی تعلیمات کو ہجو وطعن کا نشانہ بناتا تھا، تو پھر اسلام کے حق میں اور باطل سے انتقام لینے کے لیے ان کی زبانیں حرکت میں آتی تھیں اور وہ اپنی زبانوں سے وہی کام لیتے تھے جو ایک مجاہد تیر و نشتر سے کام لیتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ شعرائے کفر جب اسلام اور نبی کریم ﷺ کے خلاف الزامات کے طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کی آگ بھڑکاتے تھے تو اس کا جواب دینے کے لیے آنحضرت ﷺ شعرائِ اسلام کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے ایک موقع پر حضرت کعب بن مالک ( رض) سے فرمایا : اہجھم فوالذی نفسی بیدہ لھو اشد علیھم من النبل ” ان کی ہجو کہو کیونکہ اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تمہارا ہر شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے۔ “ حضرت حسان ابن ثابت ( رض) کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھا جاتا تھا اور وہ کافر شعراء کا جواب دیتے تھے۔ اور آ نحضرت ﷺ انہیں دعائوں سے نوازتے تھے۔ ابوسفیان اسلام لانے سے پہلے آنحضرت ﷺ کی ہجو کہا کرتا تھا۔ ایک دن اس کی ہر زہ سرائی کے جواب میں حضرت حسان ( رض) نے جو اشعار کہے ان میں سے چند حسب ذیل ہیں : ہَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَاَجَبْتُ عَنْہٗ وَاِنَّ اَبِیْ وَوَالِدَتِیْ وَعِرْضِیْ اَتَشْتِمُہٗ وَلَسْتَ لَہٗ بِکُف ٍٔ لِسَانِیْ صَارِمٌ لاَعَیْبَ فِیْہِ وَعِنْدَاللّٰہِ فِیْ ذَاکَ الْجَزَائٗ لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائٗ فَشَرُّکُمَا لِخَیْرِکُمَا الْفِدَائٗ وَبَحْرِیْ لاَ تُکَدِّرُہُ الْدِّلاَ ئٗ ” اے ابوسفیان ! تو نے میرے محبوب ﷺ کی جناب میں نازیبا باتیں کیں اور میں اس ہجو کا تمہیں جواب دے رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں مجھے اس کی جزائے خیر ملے گی۔ “ ” سنو ! تمہاری بدزبانی سے حضور ﷺ کی عزت کو بچانے کے لیے میرا باپ، میری ماں اور میری عزت بطور سپر کام دیں گے یعنی میں اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنی عزت تک کو حضور ﷺ کی عزت پر قربان کردوں گا۔ “ ” تو اس کی جناب میں نازیبا بات کہتا ہے جس کا تو ہم پایہ نہیں ہے۔ تم دونوں میں سے جو برا ہے وہ اس پر فدا ہو جو تم میں سے اچھا ہے۔ “ ” میری زبان تیز تلوار ہے اس میں کوئی نقص نہیں ہے اور میرا بحر فصاحت اتنا گہرا ہے کہ ڈول نکالنے سے وہ مکدر نہیں ہوتا۔ “ آیت کے آخری حصہ میں ظالموں کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور یہاں ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر زیادتی سے کام لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ پر کبھی شاعر ہونے کا الزام لگاتے تھے اور کبھی کاہن ہونے کا۔ تاکہ لوگ آپ کی نبوت کے بارے میں یکسو نہ ہوسکیں۔ اور اسلام کو آگے بڑھنے کا موقع نہ ملے۔ انہیں وارننگ دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے اور وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ قرآن کے نزول کا مقصد دوسری آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کا مقصد بیان فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ دنیا میں شعر و شاعری کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ہدایت دینے کی غرض سے ان کے برے انجام سے انذار کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ لیکن اس انذار اور آگاہی کے لیے جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی غیرمعمولی شخصیت اور قرآن کریم کی غیرمعمولی فصاحت و بلاغت اور آپ کی انتہا درجہ محنت و مشقت اور ہمدردی و خیرخواہی کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر دعوت الی اللہ کا کام ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتا اور انسانوں کے لیے انذار بےفائدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح دوسری ضرورت یہ ہے کہ جن لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول مبعوث ہوتا ہے اور شب و روز ان کی اصلاح کے لیے کوشش کرتا ہے وہ لوگ ایسے نہ ہوں جن میں ہَوائے نفس کے اتباع اور سفلی جذبات میں ڈوبے رہنے کے باعث انسانی قدریں دم توڑ چکی ہوں اور وہ لوگ اس بنیادی احساس سے محروم ہوچکے ہوں کہ انسان کا کوئی خالق ومالک بھی ہے اور اس نے انسانوں کو یقینا ایک مقصد زیست دے کر پیدا کیا ہے۔ اس لیے جب تک اس بات کی خبر نہ ہو کہ وہ مقصد زیست کیا ہے اور انسانوں کا خالق ومالک کن باتوں سے خوش ہوتا اور کن باتوں سے ناراض ہوجاتا ہے اور انسانی زندگی کی بھلائی کے لیے وہ بنیادی عقائد و نظریات اور وہ مکارمِ اخلاق کیا ہیں جو انسانوں کی انسانیت اور ان کے باہمی حقوق و آداب کی ادائیگی کی ضمانت بن سکتے اس وقت تک پیغمبر کی غیرمعمولی دعوت بھی حد درجہ تسخیر و تاثیر رکھنے کے باوجود کامیابی سے محروم رہتی ہے۔ اور جن لوگوں میں یہ مذکورہ بالا خصوصیات ہوتی ہیں وہی لوگ ہیں جنھیں یہاں حَیٌّ کے لفظ سے یاد فرمایا گیا ہے۔ حَیٌّکا معنی ہے زندہ۔ اور انسان کی زندگی سانس کی آمدورفت کا نام نہیں۔ اور نہ عمدہ خوراک اور زرق برق لباس کا نام ہے۔ بلکہ زندہ انسان وہ ہے جس کا ضمیر زندہ ہے جو اپنے مقصدحیات سے وابستہ ہے۔ جس میں قبولیتِ حق کا شعلہ بجھا نہیں۔ جو نصیحت کے جواب میں صورت حجر نہیں بلکہ زندہ ضمیر لے کر حاضر ہوتے ہیں اور جن کی فطرت زندہ ہے۔ یہی لوگ ہیں جن پر انذار اثرانداز ہوتا ہے جن کے بارے میں قرآن کریم نے کہا : اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ۔ (یٰسٓ: 11) ” تم انہیں کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت پر دھیان دیں اور بن دیکھے خدا سے ڈریں۔ “ اسی کے بارے میں اقبال کہتا ہے : اے دل زندہ کہیں تو نہ مر جائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے اور اس میں نبی کریم ﷺ کو تسلی بھی ہے کہ آپ کی دعوت کے نتیجے میں صرف وہی لوگ حق کو قبول کریں گے جن کے دل زندہ ہیں یعنی ان کے اندر حقیقی روحانی اور معنوی زندگی باقی ہے۔ لیکن آپ کا انذار سب کے لیے ہے۔ جو دل زندہ سے محروم ہوچکے ہیں آپ انذار انہیں بھی کریں۔ لیکن ان سے حق کی قبولیت کی امید نہ رکھیں یا کم از کم ان کے عدم قبولیت سے آپ دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ انھوں نے اپنے کرتوتوں سے اپنے آپ کو اس دولت سے محروم کرلیا ہے۔ البتہ آپ کے انذار سے فائدہ یہ ہوگا کہ ان پر اتمامِ حجت ہوجائے گا اور وہ قیامت کے دن یہ بہانہ نہ کرسکیں گے کہ ہمیں کسی نے انذار نہیں کیا تھا۔ اگر ہمیں ڈرایا جاتا یا سمجھایا جاتا تو یقینا ہم بھی آج صاحب ایمان لوگوں میں ہوتے۔
Top