Mufradat-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 68
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک اَوْلَى : سب سے زیادہ مناسبت النَّاسِ : لوگ بِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم سے لَلَّذِيْنَ : ان لوگ اتَّبَعُوْهُ : انہوں نے پیروی کی انکی وَھٰذَا : اور اس النَّبِىُّ : نبی وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّ : کارساز الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ پیغمبر آخرالزمان اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور خدا مومنوں کا کارساز ہے
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِـاِبْرٰہِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْاۭ وَاللہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ 68 أَوْلَى ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری، قال تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب/ 6] ، إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران/ 68] ، فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء/ 135] ، وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال/ 75] وقیل : أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة/ 34] من هذا، معناه : العقاب أَوْلَى لک وبك، وقیل : هذا فعل المتعدّي بمعنی القرب، وقیل : معناه انزجر . ويقال : وَلِيَ الشیءُ الشیءَ ، وأَوْلَيْتُ الشیءَ شيئا آخرَ أي : جعلته يَلِيهِ ، والوَلَاءُ في العتق : هو ما يورث به، و «نهي عن بيع الوَلَاءِ وعن هبته» »، والمُوَالاةُ بين الشيئين : المتابعة . ۔ فلان اولیٰ بکذا فلاں اس کا زیادہ حق دار ہے قرآن میں ہے : ۔ النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب/ 6] پیغمبروں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران/ 68] ابراہیم (علیہ السلام) سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء/ 135] تو خدا انکا خیر خواہی وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال/ 75] اور رشتہ دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ آیت : ۔ أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة/ 34] افسوس تم پر پھر افسوس ہے ۔ میں بھی اولٰی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے اور اولیٰ لک وبک دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ اور معنی یہ ہیں کہ عذاب تیرے لئے اولی ہے یعنی تو عذاب کا زیادہ سزا وار ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے فعل متعدی بمعنی قرب کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اولیٰ بمعنی انزجر سے یعنی اب بھی باز آجا ۔ ولی الشئیء دوسری چیز کا پہلی چیز کے بعد بلا فصل ہونا ۔ اولیت الشئیء الشئیء دوسری چیز کو پہلی چیز کے ساتھ ملا نا ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
Top