Mufradat-ul-Quran - Az-Zukhruf : 67
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠   ۧ
اَلْاَخِلَّآءُ : دوست يَوْمَئِذٍۢ : آج کے دن بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے عَدُوٌّ : دشمن ہوں گے اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ : مگر تقوی والے
(جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار
اَلْاَخِلَّاۗءُ يومئذبَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ۝ 67 ۭ ۧ خلیل : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله : قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل . الخلتہ دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا میں داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت ﷺ سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔
Top