Mufradat-ul-Quran - Az-Zukhruf : 71
یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍ١ۚ وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُ١ۚ وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَۚ
يُطَافُ : گردش کرائے جائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر بِصِحَافٍ : بڑے پیالے مِّنْ ذَهَبٍ : سونے کے وَّاَكْوَابٍ : اور ساغر وَفِيْهَا : اور اس میں مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ : جو تمنا کریں گے نفس وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُ : اور لذت پائیں گی نگاہیں وَاَنْتُمْ فِيْهَا : اور تم ان میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہو
ان پر سونے کی پرچوں اور پیالیوں کا دور چلے گا اور وہاں جو جی چاہے اور جو آنکھوں کو اچھا لگے (موجود ہوگا) اور (اے اہل جنت) تم اس میں ہمیشہ رہو گے
يُطَافُ عَلَيْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّاَكْوَابٍ۝ 0 ۚ وَفِيْہَا مَا تَشْتَہِيْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُ۝ 0 ۚ وَاَنْتُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ 71 ۚ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ صحف الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها : صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة . ( ص ح) الصحیفۃ کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔ ذهب ( سونا) الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا، ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔ كوب الْكَوْبُ : قدح لا عروة له، وجمعه أَكْوَابٌ. قال : بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] . والْكُوبَةُ : الطّبل الّذي يُلْعَبُ به . ( ک و ب ) الکوب ۔ پیالہ جس کا دستہ نہ ہو ۔ اس کی جمع اکواب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] یعنی آبخور اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس ۔ الکوبۃ ( ڈکڑگی ) یعنی باریک میاں طبلکجو تماشہ کے وقت مداری بجاتے ہیں ۔ شها أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ. ( ش ھ و ) الشھوہ کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( نس ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ وتلذ الاعین : ای وفیہا ما تلذ الاعین اور اس میں ہر وہ چیز ہوگی جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں گے۔ تلذ مضارع واحد مؤنث غائب لذۃ باب سمع مصدر ، بمعنی لذت پانا۔ مزہ لینا۔ جس سے آنکھیں لذت پائیں گی۔ عين العَيْنُ الجارحة . قال تعالی: وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ [ المائدة/ 45] ( ع ی ن ) العین کے معنی آنکھ کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ [ المائدة/ 45] آنکھ کے بدلے آنکھ ۔ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] ان کی آنکھوں کو مٹا ( کر اندھا ) کردیں ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
Top