Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 71
یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍ١ۚ وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُ١ۚ وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَۚ
يُطَافُ : گردش کرائے جائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر بِصِحَافٍ : بڑے پیالے مِّنْ ذَهَبٍ : سونے کے وَّاَكْوَابٍ : اور ساغر وَفِيْهَا : اور اس میں مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ : جو تمنا کریں گے نفس وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُ : اور لذت پائیں گی نگاہیں وَاَنْتُمْ فِيْهَا : اور تم ان میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہو
ان پر سونے کی پرچوں اور پیالیوں کا دور چلے گا اور وہاں جو جی چاہے اور جو آنکھوں کو اچھا لگے (موجود ہوگا) اور (اے اہل جنت) تم اس میں ہمیشہ رہو گے
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1:۔ یعنی ان کے لئے جنت میں کھانے اور مشروبات ہوں گے جنہیں سونے اور چاندی کے تھالوں میں ان پر گھمایا جائے گا یہاں کھانوں اور مشروبات کا ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ تھالوں او پیالوں کے گھمانے کا کوئی مطلب نہیں جب ان میں کھانے اور مشروبات نہ ہوں۔ صحاف میں سونے کا ذکر کیا جبکہ اکواب میں اس کے ذکر سے استغنا برتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (احزاب 35) صحیحین میں حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : (1) ۔ ریشم اور دیباج کا لباس نہ پہنو اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو ان کے پیایوں میں نہ کھائو کیونکہ یہ چیزیں ان کے لئے دنیا میں ہیں اور تمہارے لئے آخرت میں ہیں سورة الحج میں یہ گزر چکا ہے جس نے ان دونوں میں دنیا میں کھایا یا دنیا میں ریشم کا لباس پہنا اور توبہ نہ کی آخرت میں ہمیشہ کے لئے اس پر یہ چیزیں حرام کردی جائیں گی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مفسرین نے کہا : جنت میں سب سے کم مرتبہ جنتی پر ستر ہزار غلام سونے کے پیاوں کے ساتھ گھومیں گے دن کا کھانا اسے پیش کیا جائے گا ہر ایک برتن میں ایسی قسم کا کھانا ہوگا جو دوسرے میں نہ ہوگا وہ اس کے آخر سے اسی طرح کھائے گا جس طرح پہلے سے کھاتا ہے آخری کو اسی طرح لذیذ پائے گا جس طرح پہلے کو لذیذ پاتا ہے اس کا بعض بعض کے مشابنہ ہوگا۔ یعنی اس پر پیالے گھمائے جائیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الدہر :15) ابن مبارک نے ذکر کیا ہے یہیں معمر نے بیان کیا وہ ایک آدمی سے وہ ابو قلابہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہا : اس کے پاس کھانا اور مشروب لایا جائے گا جب وہ ان کے آخر تک پہنچیں گے تو ان کے پاس شراب طہور لایا جائے گا اس کے لئے ان کے پیٹ ضامر ہوجائیں گے ان کے جسموں سے مشک سے پاکیزہ خوشبو نکلے گی پھر یہ پڑھا۔ (دہر) صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت مری ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ” جنتی اس میں کھائیں گے، اس میں پیئیں گے وہ تھوکیں گے نہیں وہ پیشاپ نہیں کریں گے وہ براز نہیں کریں گے، وہ ریشہ نہیں پھینکیں گے “ (1) پوچھا : کھانے کا کیا بنے گا ؟ کہا : ” ڈکار اور مہک جس طرح کستوری کی مہک ہوتی ہے انہیں تسبیح تحمید اور تکبیر کا الہام کیا جائے گا “ ایک روایت میں النفس کے الفاظ ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: آئمہ نے حضرت ام سلمہ کی حدیث نبی کریم ﷺ سے نقل کی ہے فرمایا :” وہ آدمی جو سونے اور چاندی کے برتن سے پانی پیتا ہے اور وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ غٹ غٹ پیتا ہے (2) اور کہا :” سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور نہ اس کے پیالوں (برتنوں) میں نہ کھائو (3) “ یہ روایات حرمت کا تقاضا کرتی ہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ علماء اور مقاصد کے لئے ان کے استعمال کرنے میں اختلاف ہے ابن عربی نے کہا : صحیح بات یہ ہے کہ مردوں کے لئے کسی مقصد کے لئے انہیں استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کا سونے اور ریشم کے بارے میں ارشاد ہے : ” یہ دونوں چیزیں میری امت کے مذکر افراد کے لئے حرام ہیں اور مونث افراد کے لئے حلال ہیں۔ “ (4) ان میں کھانے پینے سے نہیں ان کے استعمال کی حرمت پر دال ہے کیونکہ یہ بھی سامان کی ایک صورت ہے جو جائز نہیں اس کا اصل کھانا اور پینا ہے اس کی علت آخرت کے امر کو جلدی چاہنا ہے اس اعتبار سے اس میں کھانا اور پینا اور باقی ماندہ انتقاع کی جو صورتیں ہیں سب مراد ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” یہ ان کے لئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمارے لئے دنیا میں حصہ نہیں بنایا۔ “ مسئلہ نمبر 3: برتن پر ان سے کلی کی گئی ہو یا برتن میں ان دونوں میں سے حلقہ ہو۔ امام مالک نے کہا : مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اس برتن میں پیا جائے، اسی طرح آئینہ ہو جس میں چاندی کا حلقہ ہو مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ وہ اس میں اپنا چہرہ دیکھے۔ حضرت انس ؓ کے پاس ایسا برتن تھا جس پر چاندی کی کلی کی گئی تھی اور کہا : میں نے نبی کریم ﷺ کو اس برتن میں مشروف پلایا تھا۔ ابن سیرین نے کہا : اس میں لوہے کا حلقہ تھا تو حضرت انس نے ارادہ کیا کہ اس میں چاندی کا حلقہ لگوائیں تو حضرت ابو طلحہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جو عمل کیا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا تو حضرت انس نے اسے ترک کردیا۔ مسئلہ نمبر 4:۔ جب ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں تو ان کو جمع کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ جس چیز کا استعمال جائز نہیں اس کو ذخیرہ کرنا بھی جائز نہیں جس طرح بت اور طنبور (آلہ لہو) ہمارے علماء کی کتابوں میں ہے : جو آدمی کسی کا ایسا برتن توڑے گا اس پر بازاری قیمت چٹی لازم ہوگی۔ یہ فاسد معنی ہے کیونکہ اس کا توڑنا واجب ہے تو اس وجہ سے اس قیمت کی کوئی ثمن (جو باہم بائع اور مشتری لگاتے ہیں) نہ ہوگی زکوۃ میں کسی حسی حال میں اس کی قیمت جائز نہ ہوگی اس کے علاوہ میں اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائے گی۔ بصحاف جوہری نے کہا : صفحہ، قعہ کی طرح ہے اس کی جمع صحاف آتی ہے۔ کسائی نے کہا : پیالوں میں سے سب سے بڑا جفعہ ہے پھر قصعہ ہے جو دس افراد کو سیر کرتا ہے پھر صحفہ ہے جو پانچ آدمیوں کو سیر کردیتا ہے پھر مسئکلہ ہے جو دو یا تین افراد کو سیر کردیتا ہے پھر صحیفہ ہے جو ایک آدمی کو سیر کردیتا ہے صحیفہ کا معنی کتاب بھی ہے اس کی جمع صحف اور صحائف ہے۔ جوہری نے کہا : کو ب ایسے لوٹے کو کہتے ہیں جس کا دستہ نہ ہو اس کی جمع اکواب ہے : شاعر نے کہا : وہ ٹیک لگائے ہوئے ہے اس کے دروازے کھلے ہیں اس پر غلام پیالے کے ساتھ دوڑ رہا ہے۔ قتادہ نے کہا : کو ب ایسے پیالے کو کہتے ہیں جس کا سرا چھوٹا اور دستہ بھی چھوٹا ہو اور ابریق اس پیالے کو کہتے ہیں جس کا سرا لمبا اور دستہ بھی لمبا ہو (1) اخفش نے کہا : کو اب سے مراد ایسے لوٹے ہیں جس کی سنت نہیں ہوتی۔ قطرب نے کہا : اس سے مراد لوٹے ہیں جن کی سنت نہیں ہوتی (2) مجاہد نے کہا : اس سے مراد ایسے برتن ہیں جن کے منہ گول ہیں۔ سدی نے کہا : اس سے مراد ایسے برتن ہیں جن کی سنت نہیں ہوتی۔ ابن عزیز نے کہا : اکواب سے مراد ایسے لوٹے ہیں جن کا دستہ اور سنت نہیں ہوتی اس کا واحد کو ب ہے۔ میں کہتا ہوں : مجاہد اور سدی کے قول کا یہی معنی ہے یہی اہل لغت کا مذہب ہے کہ جس کی سنت اور دستہ نہ ہو۔ ترمذی نے سلیمان بن برید سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا : عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا جنت میں گھوڑے ہیں (3) ؟ فرمایا :” اگر اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل کرے تو کیا نہیں چاہے گا کہ تو اس میں سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو وہ جنت میں تجھے لے کر اڑتا رہے جہاں تو چاہے۔ “ کہا : ایک آدمی نے پوچھا عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا جنت میں اونٹ ہیں (4) ؟ فرمایا : نبی کریم ﷺ نے اسے اس کی مثل جواب نہ دیا جو آپ نے پہلے فرد کو جواب دیا تھا فرمایا :” اگر اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل کرے گا وہاں تیرے لئے وہ کچھ ہوگا جو تیرا نفس چاہے گا اور تیری آنکھ پسند کرے گی۔ “ اہل مدینہ، ابن عامر اور اہل شام نے اسے پڑھا ہے باقی قراء نے اصل میں یہ تشتھیہ الانفس ہے تو کہتا ہے : اصل میں تو کہتا ہے : یعنی ماضی میں عین کلمہ مکسور ہے اور مضارع میں مقتوح ہے یعنی میں نے اسے لذیذ پایا۔ دونوں کا معنی ایک ہے یعنی جنت میں وہ کچھ ہوگا جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی تو وہ خوبصورت منظر ہوگا۔ سعید بن جبیر نے کہا : آنکھیں اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کی لذت حاصل کریں گی جس طرح حدیث طیبہ میں ہے : باقی رہیں گے، ہمیشہ رہیں گے کیونکہ یہ سلسلہ منقطع ہوجائے تو یہ رنج دیتا ہے۔
Top