Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(مو منو ! ) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
آیت نمبر : 92۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) ائمہ کرام نے روایت بیان کی ہے اور یہ الفاظ نسائی کے ہیں، حضرت انس ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ تو ابو طلحہ ؓ نے کہا : ہمارا رب ہمارے مالوں کے بارے میں ہم سے سوال کر رہا ہے پس یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں اس پر کہ میں نے اپنی زمین اللہ تعالیٰ کے لئے دین دے دی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تو اسے اپنے قرابتداروں حسان ابن ثابت اور ابی بن کعب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں تقسیم کر دے ، “۔ (ا) (صحیح بخاری، باب الزکاۃ علی الاقارب، حدیث نمبر 1368، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور المؤطا میں ہے ” ان کے اموال میں سے ان کے نزدیک پسندیدہ مال بیرحاء تھا اور وہ مسجد کے سامنے تھا اور رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جاتے تھے اور اس کا میٹھا اور طیب پانی نوش فرماتے تھے۔ “ پھر آگے وہی حدیث ذکر کی، تو اس آیت میں خطاب کے ظاہر اور اس کے عموم کو عمل میں لانے پر دلیل موجود ہے، کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے کوئی معنی مذکور کلام سے نہیں سمجھے، کیا آپ حضرت ابو طلحہ ؓ کو دیکھتے نہیں کہ جب انہوں نے (آیت) ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا “۔ الآیہ سنی تو انہوں نے توقف کی ضرورت محسوس نہیں کی یہاں تک کہ دوسری آیت کے ذریعہ اس کا بیان اور وضاحت آجائے تو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے خرچ کریں یا کوئی سنت سامنے آجائے تو اس کی وضاحت کرنے والی ہو کیونکہ وہ تو بہت سی اشیاء کو پسند کرتے ہیں۔ اور اسی طرح حضرت زید ابن حارثہ ؓ نے بھی کیا کہ آپ نے اپنے پسندیدہ گھوڑے کا قصد کیا اسے سبل کہا جاتا تھا اور کہا : اے اللہ ! یقینا تو جانتا ہے کہ میرے نزدیک میرے اس گھوڑے سے زیادہ پسندیدہ مال کوئی نہیں ہے، پس آپ اسے حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کی : یہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان ہے (اسے قبول فرمائیے) تو آپ ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو فرمایا : ” اسے قبضے میں لے لو “ تو گویا حضرت زید ؓ نے اس کے بارے اپنے دل میں کچھ (وہم سا) پایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ قد قبلھا منک بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اسے تجھ سے قبول فرما لیا ہے۔ اسے اسد بن موسیٰ نے ذکر کیا ہے (2) (تفسیر طبری، جلد 5، صفحہ 577) اور حضرت ابن عمر ؓ نے اپنے غلام نافع کو آزاد کیا اور اس میں حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ نے انہیں ہزار دینار عطا کئے، صفیہ بنت ابی عبید نے کہا ہے : میں ان کے بارے گمان کرتی ہوں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تاویل کی (آیت) ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ اور شبل نے ابو نجیح سے اور انہوں نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو طرف لکھا کہ وہ مدائن کسری کی فتح کے دن جلولاء کے قیدیوں سے ان کے لئے ایک لونڈی خریدیں، تو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے بیان کیا : پس حضرت عمر ؓ نے اسے بلایا تو اس نے آپ کو بہت خوش کیا، تو انہوں نے کہا : بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ چناچہ حضرت عمر ؓ نے اسے آزاد کردیا، اور حضرت ثوری (رح) سے مروی ہے کہ ان تک یہ خبر پہنچی ہے کہ ربیع بن خیثم کی ام ولد نے بیان کیا ہے کہ جب ان کے پاس کوئی سائل آتا تو وہ مجھے فرماتے اے فلانہ، سائل کو شکردے دو ، کیونکہ ربیع شکر بہت پسند کرتا تھا، سفیان نے کہا ہے : وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی (یہی) تاویل کرتے ہیں : (آیت) ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ سے مروی ہے کہ وہ شکر کی بوریاں خریدتے تھے اور انہیں صدقہ کردیتے تھے تو آپ سے عرض کی گئی : آپ اس کی قیمت کیوں نہیں صدقہ کردیتے ؟ تو آپ نے فرمایا : کیونکہ شکر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنی زیادہ پسندیدہ اور محبوب شے (اللہ تعالیٰ راہ میں) خرچ کر دوں۔ اور حسن (رح) نے کہا ہے : یقینا تم اسے ہر گز نہیں پا سکو گے جسے تم پسند کرتے ہو مگر اسے چھوڑ کر جس کی خواہش اور چاہت تم رکھتے ہو اور تم اس کا ادراک نہیں کرسکتے جس کی تم آرزو رکھتے ہو مگر اس پر صبر کرتے ہوئے جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ مسئلہ نمبر : (2) البر “ کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے بعض نے کہا ہے : اس سے مراد جنت ہے، یہ حضرت مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت عطا، حضرت مجاہد، عمرو، بن میمون اور سدی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، و رحمۃ اللہ علہیم سے منقول ہے، اور تقدیر کلام یہ ہوگی، ” لن تنالوا ثواب البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ (تم نیکی کا ثواب ہر گز نہیں پا سکتے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ ) اور النوال بمعنی عطا ہے، یہ تیرے اس قول سے ہے تولتہ تنویلا یعنی میں نے اسے عطا کیا، اور نالنی من فلان معروف ینالنی، یعنی وہ مجھ تک پہنچ گیا، سو معنی یہ ہوگا : تم ہر گز جنت تک نہ پہنچ سکو گے اور نہ تم اسے پاس سکو گے یہاں تک کہ تم خرچ کر دو (راہ خدا میں) ان چیزوں میں سے جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔ اور بعض نے کہا ہے : البر سے مراد عمل صالح (نیکی) ہے، اور صحیح حدیث میں ہے : ” تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ سچائی عمل صالح کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور عمل صالح جنت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الادب حدیث نمبر 5629، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) سورة البقرہ میں یہ گزر چکا ہے۔ عطیہ العوفی نے کہا ہے : البر “ سے مراد طاعت ہے، حضرت عطا (رح) نے بیان کیا ہے : تم ہر گز دین اور تقوی کا شرف و مرتبہ نہ پا سکو گے یہاں تک کہ تم صدقہ کرو درآنحالیکہ تم صحت مند اور حریص ہو، تم زندگی کی آرزو رکھتے ہو اور فقر و افلاس سے ڈرتے ہو، اور حسن سے منقول ہے کہ (آیت) ” حتی تنفقوا “ سے مراد فرض زکوۃ ہے، مجاہد اور کلبی نے کہا ہے : یہ آیت منسوخ ہے اسے آیت زکوۃ نے منسوخ کیا ہے، اور بعض نے کہا ہے : اس کا معنی ہے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے خیر اور نیکی راہ میں مثلا صدقہ یا علاوہ ازیں دیگر طاعات وغیرہ اور یہ جامع معنی ہے، اور نسائی نے صعصعہ بن معاویہ سے روایت نقل کی ہے، انہوں نے کہا : میں حضرت ابو ذر ؓ سے ملا تو میں نے کہا کوئی حدیث بیان فرمائے تو انہوں نے کہا ہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو مسلمان آدمی اپنے ہر مال سے جوڑا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو جنت کے تمام دربان اس کا استقبال کریں گے اور ان میں سے ہر کوئی اسے اس کی طرف بلائے گا جو اس کے پاس ہے، میں نے پوچھا : وہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اگر تو وہ (مال) اونٹ ہیں تو پھر دو اونٹ (صدقہ کرے) اور اگر وہ گائیں ہیں تو پھر وہ دو گائیں (صدقہ کرے) اور ابوبکر الوراق نے کہا ہے : (اللہ تعالیٰ نے) اس آیت کے ساتھ مکارم اخلاق پر ان کی راہنمائی کی ہے، یعنی تم ہر گز اپنے ساتھ میری نیکی کو نہیں پا سکو گے مگر اس طرح کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو اور اپنے اموال اور جاہ و حشمت میں سے ان پر خرچ کرو، پس جب تم اس طرح کرو گے تو پھر میری نیکی، احسان اور میرا لطف ومہربانی تمہیں آپہنچے گی۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا : یہ اس ارشاد کی مچل ہے : (آیت) ” ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم “۔ یعنی جب وہ جانتا ہے تو اس پر جزا عطا فرمائے گا۔
Top