Al-Qurtubi - Yaseen : 80
اِ۟لَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ
الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الشَّجَرِ : درخت الْاَخْضَرِ : سبز نَارًا : آگ فَاِذَآ : پس اب اَنْتُمْ : تم مِّنْهُ : اس سے تُوْقِدُوْنَ : سلگاتے ہو
(وہی) جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس (کی ٹہنیوں کو رگڑ کر ان) سے آگ نکالتے ہو
اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر متنبہ فرمایا اور مردوں کو زندہ کرنے کے ساتھ اپنی کمال قدرت پر دلیل قائم کی ان چیزوں سے جنہیں وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ تر لکڑی سے ایسی چیز نکالی جو جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خشک ہوتی ہے اس استدلال کی وجہ یہ ہے کہ کافر نے کہا : نطفہ زندگی کی طبیعت کی وجہ سے گرم تر ہے اور ہڈی موت کی طبیعت کی بنا پر ٹھنڈی اور خشک ہے تو اس سے زندگی کیسے نکلتی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فامیا کہ سبز درخت پانی سے جنم لیتا ہے پانی ٹھنڈا تر ہے جو آگ کی ضد ہے یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں اللہ تعالیٰ نے اس سے آگ کو پیدا کیا تو وہ اس پر قاد رہے کہ ضد کو ضد سے نکالے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس سے مراد مرخ اور عفار میں موجود وئم کو آگ ہے ‘ یہ عربوں کی زنادہ ہے ‘ اسی سے ان کا قول ہے : فی کل شجرنا رواستمجد المرخ والعفار۔ ہر درخت میں آگ ہے مرخ اور عفار نے خوب حصہ لیا عفار کو زنددہ کہتے ہیں یہ اوپر والی لکڑی ہے مرخ زندہ ہے یہ نیچے والی لکڑی ہے ‘ دونوں سے دوٹہنیاں لی جاتی ہے جس طرح دو مسواک ہوتے ہیں دونوں پانی گزا رہی ہوتی ہیں ایک کو دوسری کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو ان دونوں سے آگ نکلتی ہے۔ الشجر الاخضر فرمایا الخضراء نہیں فرمایا جب کہ یہ جمع ہے (2) کیونکہ اسے) الأخضر ( کے لفظ کی طرف پھیرا گیا ہے۔ عربوں میں سے کچھ یہ بھی کہتے ہیں : الشجر الخضراء جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمایا ہے : من شجر من زقوم۔ فمالئون منھا الطون۔ ) الواقعہ ( پھر اللہ تعالیٰ نے استدلال کرتے ہوئے فرمایا : اولیس الذی خلق السموت والارض بقدر علی ان یخلق مثلھم ‘ مثلھم سے مراد بعث کا انکار کرنے والوں کو مثل ہے سلام ‘ ابو منذر اور یعقوب حضرمی نے یقدر علی ان یخلق مثلھم پڑھا ہے کہ یقدر فعل ہے۔ بلی : کیوں نہیں آسمان اور زمین کی تخلیق ان کو پیدا کرنے سے بہت بڑھ کر ہے وہ ذات پاک جس کے آسمانوں میں زمین کو پیدا کیا وہ انہیں دوبارہ اٹھانے پر بھی قادری ہے وہ ھو الخلق العلم۔ وہ خالق وعلیم ہے حضرت حسن بصری نے اسے خالق پڑھا ہے (1) کسائی نے فیکون نصب کے ساتھ پڑھا اور اس کا عطف یعقول پر یعنی جب وہ کسی چیز کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ مشقت و ترتھکاوٹ کی محتاج نہیں ہوتا۔ یہ بحث کئی مواقع پر گذر چکی ہے۔ فسبحن الذی اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی عجز و انکساری سے پاکی بیان کی ہے ملکوت اور ملکوتی عربیوں کے کلام ہیں مل کے معنی میں ہے عرب کہتے ہیں : جبروتی خیر من رحموتی۔ میرا جبروت ‘ میرا رحموت سے بہتر ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت نقل کی ہے ملکوت کل شیء سے مراد ہے شے کی چابیاں ہیں۔ طلحہ بن مصف ‘ ابراہیم تیمی اور اعمش نے اسے ملکۃ پڑھا ہے یہ ملکوت کے معنی میں ہے مگر یہ مصحف کے خلاف ہے۔ و آصج ترجعون۔ تمہاری موت کے بعد اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا عام قرأت تاء کے ساتھ ہے اور خطاب کا صیغہ ہے۔ سلمی ‘ زربن جیش اور حضرت عبداللہ کے شاگردوں نے یرجعون پڑھا ہے۔
Top