Ruh-ul-Quran - Yaseen : 80
اِ۟لَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ
الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الشَّجَرِ : درخت الْاَخْضَرِ : سبز نَارًا : آگ فَاِذَآ : پس اب اَنْتُمْ : تم مِّنْهُ : اس سے تُوْقِدُوْنَ : سلگاتے ہو
وہی ہے جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے آگ جلا لیتے ہو
الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمْ مِّنَ الشَّجَرِالْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَٓا اَنْـتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 80) (وہی ہے جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے آگ جلا لیتے ہو۔ ) ضد سے ضد کا ظہور تمہیں اس بات میں استبعاد نظر آتا ہے کہ موت سے زندگی کیسے نکل سکتی ہے، ضد سے ضد کا ظہور کیسے ہوسکتا ہے، خزاں سے بہار کیسے پھوٹ سکتی ہے۔ اسی لیے تمہیں انسانوں کا دوبارہ جی اٹھنا بعیدازعقل معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ ضد سے ضد کا ظہور تمہارے اپنے مشاہدات کا حصہ ہے۔ کیا آج کی دنیا میں پانی سے بجلی پیدا نہیں کی جاتی، کوئلے سے سفید دھاگا نہیں نکالا جاتا۔ چلیے اسے تو آپ مشینوں کا عمل سمجھ لیجیے لیکن قرآن کریم نے ایک ایسی مثال دی ہے جو نزول قرآن کے وقت انسانی تجربے کا حصہ تھی۔ پہاڑوں اور صحرا میں رہنے والے بدو اور صحرائوں کے مسافردو ہرے بھرے درختوں کی ٹہنیوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر آگ نکالتے تھے یعنی ان سے چقماق کا کام لیتے تھے۔ جب ان ٹہنیوں کو آپس میں ٹکرایا جاتا تھا تو ان سے آگ کے شعلے جھڑنے لگتے تھے اور یہ کوئی افسانہ نہیں، یہ دو درخت ” مرخ “ اور ” عقار “ کے نام سے صحرائوں اور پہاڑوں میں پائے جاتے تھے۔ اور دورجاہلیت کے ادب میں اس کا عام تذکرہ موجود تھا۔ الکامل للمبرد میں مختلف اشعار میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اور حماسی شاعر بھی اس سے بیخبر نہ تھے۔ اگر ان دو درختوں کی سرسبز ٹہنیوں سے آگ کے شعلے جھڑ سکتے ہیں اور یہ بھی یقینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انسانوں کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرسکتا۔
Top