Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 134
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : تم سے پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا۔
تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَاکَسَبْتُمْ ج وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا) (البقرۃ : 134) بحث کو سمیٹ کر ایمان و عمل اور آخرت کی جواب دہی کی طرف متوجہ کیا گیا اسی سلسلہ بیان میں گزشتہ کسی جگہ یہ بات گزر چکی ہے کہ یہود کی گمراہی اور دین سے لاتعلقی کے متعدداسباب تھے، لیکن ان میں ایک اہم تر سبب یہ تھا کہ وہ ایمان وعمل کو نجات کی بنیاد بنانے کی بجائے نسل اور نسب کو بنیا دبنا چکے تھے۔ انھیں اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ ہماری بد اعمالیوں کے نتائج کیا ہوں گے بلکہ ان کے اعتماد اور بھروسے کی سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو انبیائے کرام کی اولاد اور اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ کا رشتہ دار سمجھتے تھے۔ اس نسبت کو وہ اتنا عظیم جانتے تھے کہ اس کی موجودگی میں کسی اور چیزکو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا یقین تھا کہ دنیا کی سرافرازیاں ہمارے سوا کسی اور کے لیے نہیں اور آخرت میں جنت کے لیے اس سے بڑا استحقاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کے نبیوں کی اولاد ہیں۔ جنت میں اگر ہم نہیں جائیں گے تو کیا ایرے غیرے لوگ جائیں گے۔ یہ سہارے انھیں لے بیٹھے اور ان کی دینی اور اجتماعی زندگی انھیں مفروضوں کے باعث ایمان و عمل کے نور سے محروم ہوگئی۔ چناچہ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے خلاصے کے طور پر انھیں یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ انبیاء اور اللہ کے نیک بندوں کا گروہ جن کا تذکرہ ہم نے گذشتہ آیات میں کیا ہے، اپنی مقدس اور سرفروشانہ زندگی گزار کر اپنے اللہ کے پاس جاچکے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے اعمال انھیں کے کام آئیں گے وہ اپنے کارہائے جلیلہ کے باعث اللہ کے بیش از بیش تقرب کے مستحق ہوں گے۔ لیکن ان کے یہ اعمال اور یہ کارنامے کسی اور کے لیے سہارا نہیں بنیں گے، وہاں کسی گروہ یا کسی فرد سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم کس کی اولاد ہو بلکہ صرف ایمان وعمل کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایمان وعمل ہی وہ سکہ ہوگا جو قیامت کے دن چلے گا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت ِ فاطمہ ( رض) اپنی پھوپھی حضرت صفیہ ( رض) اور ایک موقع پر بنی ہاشم کے بڑے بڑے سرداروں سے فرمایا کہ آج جو کچھ کرسکتے ہو کرلو تمہارا یہی سرمایہ کل کو کام آئے گا۔ ایسا نہ ہو کہ تم خالی ہاتھ محشر میں پہنچ جاؤ اور پھر مغفرت کے لیے میرے پاس آئو۔ میں تمہارے لیے وہاں کچھ نہیں کرسکوں گا۔ ہر پیغمبر نے اپنے ماننے والوں کو یہی تعلیم دی۔ پیغمبر اپنے ماننے والوں کی شفاعت ضرور کریں گے، لیکن اس کا تعلق اعمال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ہوگا۔ ایمان وعمل سے محرومی کی صورت میں کسی شفاعت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ وہاں تو ہر ایک سے اس کا اپنا سرمایہ عمل پیش کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ کسی دوسرے کا عمل اس کے کسی کام نہیں آئے گا۔ اولاد ماں باپ کے کام نہیں آئے گی، ماں باپ اولاد کے کام نہیں آئیں گے۔ مرشد مسترشد کے کام نہیں آئے گا اور مسترشد مرشد کے کام نہیں آئے گا۔ وہاں ہر ایک کو اپنی صلیب خود اٹھا نا ہوگی، کسی سے کسی دوسرے کے اعمال کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی۔ جب اپنے ہی اعمال وہاں کام آئیں گے تو پھر اعمال کی جگہ تو یہ دنیا ہے، یہی دارالعمل ہے۔ یہاں مہلت عمل میسر ہے، موقعہ ہے یہاں کچھ تیاری کرلی جائے۔ جس نے آج یہ موقعہ کھو دیا کل کو آبائو اجداد کے اعمال چاہے وہ اللہ کے نبی کیوں نہ ہوں اولاد کے کام نہیں آئیں گے۔ یہی بات اس آیت کریمہ میں خلاصہ بحث کے طور پر بنی اسرائیل سے خصوصاً اور تمام نوع انسانی سے عموماً فرمائی جارہی ہے۔
Top