Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور مشرق ہو یا مغرب سب اللہ ہی کیلئے ہے جہاں کہیں بھی تم رخ کرلو اللہ تمہارے سامنے ہے ، بلاشبہ وہ وسیع قدرت والا جاننے والا ہے
سمت کا مقرر کرنا انتظامی امور سے متعلق ہے اللہ ہر سمت سے پاک ہے : 216: ایک مذہبی جماعت ہونے کے باوجود بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی رحمت کو بیت المقدس ہی میں محدود کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف اسی طرف رخ کرنے سے انوار و تجلیات الٰہیہ کا نزول ہو سکتا ہے حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ اس کے لئے تو مشرق و مغرب سب برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جس جگہ کچھ لوگ جمع ہو کر اس کے ذکر میں مصروف ہوں گے اس کی رحمت فوراً ان کی طرف متوجہ ہوگی کیونکہ اللہ کی رحمت کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا اور وہی جانتا ہے کہ اس کا صحیح محل نزول کونسا ہے۔ اس آیت میں رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دی گئی ہے کہ مشرکین مکہ نے اگرچہ آپ ﷺ کو مکہ اور بیت اللہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا اور مدینہ پہنچ کر ابتدائی زمانہ میں سولہ سترہ ماہ تک آپ ﷺ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور اب بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ملا ہے لیکن اس میں آپ ﷺ کا کوئی نقصان نہیں نہ آپ ﷺ غمگین ہوں کیونکہ اللہ کی ذات پاک کسی خاص سمت میں نہیں وہ ہر جگہ ہے اس کے لئے مشرق و مغرب یکساں ہیں کعبہ کو قبلہ نماز بنائیں یا بیت المقدس کو ، دونوں میں کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ امرا الٰہی کی تعمیل ہی دونوں جگہ سبب فضیلت ہے۔ ؎ داد حق را قابلیت شرط نیست ۔ بلکہ شرط قابلیت داد ہست اس لئے جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اب کعبہ کی طرف فضیلت گویا لوٹا دی گئی کیونکہ بندے کو جو اجر ملنے والا ہے وہ کسی سمت کی وجہ سے نہیں ، بلکہ تعمیل حکم کی وجہ سے ملے گا۔ چند مہینوں کے لئے بیت المقدس کو قبلہ قرار دے کر اور اس کے بعدکعبہ کو قبلہ تسلیم کر کے گویا آپ ﷺ نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ کسی خاص سمت یا مکان کو قبلہ قرار دینا اس وجہ سے نہیں کہ معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ اس مکان یا اس سمت میں ہے دوسری جگہ میں نہیں بلکہ اللہ تو ہر جگہ اور ہر سمت میں یکساں توجہ کے ساتھ موجود ہے۔ کسی خاص سمت کو قبلہ عالم قرار دینا ، دوسری حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی توجہ کسی خاص سمت یا جگہ کے ساتھ مقید نہیں تو اب عمل کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ ہر شخص کو اختیار دے دیا جائے کہ جس طرف چاہے رخ کر کے نماز پڑھے دوسرے یہ کہ سب کے لئے کوئی خاص سمت و جہت معین کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں ایک طرح کا تشتت و افتراق کا منظر سامنے آجائے گا۔ کہ دس آدمی نماز پڑھ رہے ہیں اور ہر ایک کا رخ الگ الگ ہے گویا کہ ہر ایک کا قبلہ جدا جدا ہے اور دوسری صورت میں تنظیم و اتحاد کا عملی سبق ملتا ہے۔ ان حکمتوں کی بنا پر سارے عالم کا قبلہ ایک ہی چیز کو بنانا زیادہ مناسب ہے ۔ اب وہ بیت المقدس ہو یا کعبہ دونوں ہی مقدس و متبرک مقامات ہیں ۔ ہر قوم اور ہر زمانہ کے مناسب احکامات آتے ہیں۔ ہم نے کبھی بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا لیکن یہود نے اس کو قبلہ بنا لیا اور رسول اللہ ﷺ اہل کتاب ہونے کے ناطے سے ان کے قرار دیئے گئے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور کچھ عرصے کے بعد اللہ نے اپنی خاص مصلحت کے تحت اہل اسلام کو کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا تاکہ قومی یکجہتی قائم ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ کی دلی خواہش کا احترام بھی پورا ہو۔ قانون الٰہی کی گہرائیوں کو ہر کوئی نہ سمجھ سکے یہ دوسری بات ہے لیکن کوئی نہ کوئی حکمت اس میں ضرور پنہاں ہوتی ہے لوگوں نے تو سمت نماز مقرر ہوجانے کے بعد اس آیت کو منسوخ مان لیا کہ اب اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہے حالانکہ یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے اگر یہ آیت موجود نہ ہوتی تو اور حکم آیت موجود نہ ہوتا تو اہل اسلام کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ جہاں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرنا ممکن نہیں رہتا وہاں کیا کیا جاتا ہے۔ ریل ، پانی کا جہاز ، ہوائی جہاز اور نہ معلوم ابھی کون کونسی سواریاں آئیں گی۔ جس میں ایک سمت منہ رکھنا ممکن ہی نہیں وہاں نماز ادا کرنے کا وقت آجاتا تو ایک مسلمان کیا کرتا ؟ اس آیت نے ان ساری کلفتوں اور پریشاینوں کا حل پیش کردیا کہ جس طرف بھی تمہارا منہ ہوگا اس سمت میں اللہ موجود ہے زیادہ وہم مت کرو۔ بس نماز ادا کرو اگر سمت بدلتی ہے تو بدلنے دو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح جہاں نمازی کو سمت قبلہ معلوم ہی نہ ہو اور سمت مقرر کرنا بھی دشوار ہو یعنی اس کے بس کا روگ نہ ہو اور کوئی بتلانے والا بھی موجود نہ ہو تو وہاں بھی یہی حکم ہے کہ اپنے خیال سے جس طرف کو سمت بنا لے گا قبلہ اس طرف ہے اگر قبلہ اس طرف نہ بھی ہوگا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ کا نام لے اور نماز کو ادا کرلے اگر نماز ادا کرلینے کے بعد کسی وجہ سے معلوم ہوجائے کہ میری سمت صحیح نہ تھی تو بھی نماز درست ہوجائے گی صرف اس وجہ سے نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے کہ : فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ 1ؕ ۔ بعض لوگوں نے اس آیت کے یہ معنی بھی لئے ہیں کہ اس میں مسلمانوں کے غلبہ و اقتدار کی پیشگوئی ہے کہ وہ جس طرف بھی رخ کریں گے فتح و نصرت ان کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ دنیا کے گوشہ گوشہ اور کونہ کونہ میں پھیل کر رہیں گے اور مشرق و مغرب پر انہی کا قبضہ ہوگا۔ اللہ کی وسعت کو کون پا سکتا ہے ۔ کبھی یہ مطلب بھی صحیح اور درست تھا لیکن آج ہماری بدقسمتی اور نااہلی کے باعث وہ وقت نہیں رہا۔ ہاں ! اللہ ہمیں اپنی حالت کے درست کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور وہ وقت دوبارہ لوٹ آئے تو ناممکن بھی نہیں کہ وسعت آیت اس مضمون پر بھی حاوی ہوجائے۔
Top