Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 171
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً١ؕ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَثَلُ : اور مثال الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا كَمَثَلِ : مانند حالت الَّذِيْ : وہ جو يَنْعِقُ :پکارتا ہے بِمَا : اس کو جو لَا يَسْمَعُ : نہیں سنتا اِلَّا : سوائے دُعَآءً : پکارنا وَّنِدَآءً : اور چلانا صُمٌّۢ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : پس وہ لَا يَعْقِلُوْنَ : پس وہ نہیں سمجھتے
مثال ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایسی چیزوں کو پکارے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سنتی سمجھتی ہوں۔ یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں یہ سمجھ نہیں سکتے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّادُعَآئً وَّنِدَآئً ط صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ ۔ (البقرۃ : 171) (مثال ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایسی چیزوں کو پکارے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سنتی سمجھتی ہوں۔ یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں یہ سمجھ نہیں سکتے) صورتِ حال کی تمثیل صورت حال ہے یہ تمثیل ان لوگوں کی ہے جو عقل و بصیرت سے کام لینے کی بجائے اندھے بہرے ہو کر محض باپ دادا کی تقلید پر فخر کررہے ہیں۔ جس طرح بھیڑبکریاں بغیر سوچے سمجھے اپنے چرواہے کے پیچھے چلتی رہتی ہیں انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ چرواہا انھیں کہاں لے کرجائے گا اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جدھر ایک بھیڑ بکری نے منہ کرلیا سب اس کے پیچھے منہ اٹھائے چل پڑیں۔ قطع نظر اس سے کہ ادھر جانے میں انھیں نقصان ہوگا یا فائدہ۔ یہ بھی اپنے ماں باپ کے پیچھے بھیڑ بکریوں کی طرح چل رہے ہیں یا انھیں میں سے کسی نے کوئی نئی راہ نکال لی ہے تو وہ اس راہ پر چل نکلے ہیں۔ بس دوسروں کی پیروی اور زمانے کے ساتھ چلتے رہنا یہ ان کا طرّہ امتیاز ہے، اس لحاظ سے ان کا رویہ بالکل بھیڑ بکریوں جیسا ہے۔ کبھی اگر چرواہا محسوس کرتا ہے کہ میرا گلہ غلط طرف چل نکلا ہے تو وہ انھیں اگر پیچھے سے پکارتا ہے تو پورا گلہ اس کی آواز تو سنتا ہے لیکن یہ سمجھنے کی زحمت نہیں کر تاکہ وہ انھیں کہتا کیا ہے ؟ یہ لوگ بھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں حقائق کی طرف بلایا جارہا ہے، کبھی ہم ان پر غور کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے اس میں ہمارا ہی بھلا ہو۔ قرآن کریم کہتا ہے، یہ لوگ اپنی روش بدلنے کے لیے بالکل تیار نہیں کیونکہ اس کے لیے جن بنیادی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ان سے بالکل بیگانہ ہوچکے ہیں۔ یہ بہرے ہیں، کوئی بات سن کے نہیں دیتے۔ یہ گونگے ہیں، اقرارِ حق کے لیے ان کی زبان کھلتی نہیں۔ یہ اندھے ہیں، حق کو دیکھ نہیں سکتے۔ ہدایت سے ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ تشبیہ اور تمثیل میں فرق یاد رہے ! اس آیت کریمہ میں جو مثال دی گئی ہے وہ تمثیل ہے تشبیہ نہیں۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ میں کامل مشابہت ہوتی ہے، دونوں کے اجزا تک میں تشبیہ تلاش کی جاتی ہے۔ لیکن ممثل اور ممثل بہ کے تمام اجزا کی ایک دوسرے سے مطابقت ضروری نہیں ہوتی بلکہ صرف صورت واقعہ کی صورت واقعہ سے مطابقت ضروری ہوتی ہے۔ نیز اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ جس چیز کی تمثیل دی جارہی ہے اس کی پوری صورت واضح کی جائے بلکہ صرف اس صورت واقعہ کی وضاحت ضروری ہوتی ہے جس سے تمثیل دی جاتی ہے۔ اسی کے آئینہ میں اس کا عکس بھی دیکھ لیتے ہیں جس کی تمثیل پیش کرنا مقصود ہے۔ اسی لیے ہم نے اس تمثیل کی وضاحت میں اس صورت واقعہ کی وضاحت ضروری سمجھی ہے جس کی تمثیل بیان کی جارہی ہے اور یہ وضاحت اس آیت کریمہ کے اصل مضمون کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
Top