Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 222
تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ
تَنَزَّلُ
: وہ اترتے ہیں
عَلٰي
: پر
كُلِّ
: ہر
اَفَّاكٍ
: بہتان لگانے والا
اَثِيْمٍ
: گنہگار
وہ اترتے ہیں ہر جھوٹ گھڑنے والے بدکار پر
وَالشُّعَرَآئُ یَـتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ ۔ اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْن۔ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالاَ یَفْعَلُوْنَ ۔ اِلاَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِمَاظُلِمُوْا ط وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ۔ (الشعرآء : 224 تا 227) (اور شعراء، بہکے ہوئے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں ایسی باتیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے جنھوں نے نیک اعمال کیے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا، اور انھوں نے بدلہ لیا اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور عنقریب جان لیں گے جنھوں نے ظلم و ستم کیے کہ ان کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے۔ ) آنحضرت ﷺ پر شاعر ہونے کے الزام کی تردید مخالفین جس طرح آنحضرت ﷺ کو کاہن قرار دیتے تھے اور جس کی تردیدہم گزشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں، اسی طرح وہ آپ ﷺ کو شاعر بھی قرار دیتے تھے حالانکہ ان کا وہ بالائی طبقہ جو شعرفہمی میں ایک مقام رکھتا تھا اس نے کبھی آنحضرت ﷺ کو شاعر قرار نہیں دیا اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا قرآن کریم شعر کی زبان میں نازل ہوا ہے تو وہ اسے شعر کہنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ البتہ جس بات نے انھیں مجبور کیا کہ قرآن کریم کو شاعری کی کتاب اور آنحضرت ﷺ کو ایک شاعر قرار دیں وہ یہ بات تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر قرآن کریم کو پیش کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کیونکہ مجھ پر قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی کتاب نازل ہوئی ہے۔ اور پھر قرآن کریم کے اعجاز کو قرآن اور اپنی حقانیت کی دلیل ٹھہرایا اور چیلنج کیا کہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں سمجھتے تو پھر اس کی مثال لا کر دکھائو۔ تو اب ان کے لیے آنحضرت ﷺ کی نبوت سے انکار کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی تھی کہ وہ قرآن کریم کے اعجاز اور اس کی فصاحت و بلاغت کو شعر کا نتیجہ قرار دیں اور آنحضرت ﷺ کو شاعر ثابت کریں۔ اور لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ تم جس کتاب کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے اسے آسمانی کلام ماننے پر مجبور ہورہے ہو اس کی یہ فصاحت و بلاغت کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں شاعروں کے کلام میں نظر آتی ہے۔ اس لیے محمد ﷺ پیغمبر نہیں بلکہ شاعر ہیں۔ البتہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ قرآن کریم میں جو فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اس کا جواب کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ سب سے بڑے شاعر ہیں، لیکن یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ اس قرآن کی دلیل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو شاعر قرار دے کر وہ ایک اور پہلو سے بھی آپ ﷺ کی نبوت کے بارے میں لوگوں میں بدگمانیاں پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ کہ شاعروں کے بارے میں عام طور پر اہل عرب یہ تصور رکھتے تھے کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اس کو شعر الہام کرتا ہے۔ تو محمد ﷺ چونکہ ایک شاعر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایک جن لگا ہوا ہے جو ان پر خوبصورت کلام القاء کرتا ہے۔ محمد ﷺ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ کوئی فرشتہ ہے حالانکہ یہ ویسا ہی جن ہے جیسا ہر بڑے شاعر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے پیش نظر آیات کریمہ میں تین کسوٹیاں رکھ دی ہیں جس پر پرکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کسی شاعر کا کلام ہے یا کلام ربانی ہے۔ اور اس کا سنانے والا کوئی شاعر ہے یا اللہ تعالیٰ کا رسول۔ فیصلہ کن تین کسوٹیاں پہلی کسوٹی یہ پیش کی گئی ہے کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح کوئی کلام بھی اس بات سے پہچانا جاتا ہے کہ اس نے اپنے زیراثر لوگوں کو کس طرح کی سیرت و کردار سے آراستہ کیا ہے اور اس کے پڑھنے اور سننے والے اپنے اندر کیسے خصائل رکھتے ہیں۔ شعراء اور ان کا کلام آپ کے سامنے ہے اور ان کے پڑھنے والوں کی زندگیاں بھی آپ کے گردوپیش میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح محمد ﷺ نے جن لوگوں کو اپنی تعلیم و تربیت سے جس رنگ میں رنگا ہے، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ دونوں کا تقابل کرکے دیکھ لو، اگر تو دونوں کی زندگیوں کا رنگ ایک جیسا ہے، ان کے طوراطوار یکساں ہیں، ان کے اہداف ملتے جلتے ہیں، ان کے اعمال ایک دوسرے سے مشابہ ہیں، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی دونوں شاعر ہیں اور دونوں کا کلام یکساں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف انتہائی سنجیدگی، تہذیب، شرافت، راست بازی اور خدا ترسی ہے، بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے، برتائو میں لوگوں کے حقوق کا پاس ولحاظ ہے، معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے۔ اور دوسری طرف شعراء کے ساتھی گمراہ، اوباش، عیاش اور شرپسند قسم کے لوگ ہیں جن کی زندگیاں فسق و فجور سے عبارت ہیں، جن کا سب سے بڑا ہدف عشق بازی اور شراب نوشی ہے اور جن کی دلچسپیاں حسن پرستی، شہوانیت اور جنسی مواصلت کے گرد گھومتی ہیں، جنھوں نے کبھی قوم کو اتفاق و اتحاد کی دولت دینے کی بجائے ہمیشہ بکر و تغلب کی لڑائیوں جیسے فسادات میں مبتلا کیا ہے، جو اخلاق کی بندشوں سے آزاد، جذبات و خواہشات کی رو میں بہنے والے اور لطف و لذت کے پرستار، نیم حیوان قسم کے لوگ ہیں جن کے ذہن کو کبھی یہ خیال چھو کر بھی نہیں گیا کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کا کوئی بلند تر نصب العین بھی ہے۔ تو ان دونوں کرداروں کو دیکھ کر اور زندگی کے ان دو نمونوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دونوں نمونے یکساں ہیں اور جس کلام کے زیراثر یہ دو الگ الگ نمونے تیار ہوئے ہیں اس کلام کا منبع ومصدر ایک ہی ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری کسوٹی جس پر پرکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کا پیش کرنے والا اللہ تعالیٰ کا رسول ہے یا وہ ایک عظیم شاعر اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے۔ یہ ہے کہ ان شاعروں کا حال یہ ہے کہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی ان کا توسن فکر ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ ان کے فکر کی کوئی بنیاد نہیں۔ جس طرح ہر درخت اپنی جڑ سے پھوٹتا ہے آہستہ آہستہ تنا بنتا ہے، پھر اس سے شاخیں پھوٹتی ہیں اور باغ و بہار لاتا ہے لیکن وہ اپنی جڑ سے کبھی بےنیاز نہیں ہوتا اور نہ اس کے پھل اس کی حقیقت سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ یہی حال انسان کا بھی ہے کہ اگر اس کے عقائد متعین ہیں، اس کی سوچ کا راستہ مقرر ہے، اس کی منزل طے شدہ ہے، اس کے اہداف واضح ہیں وہ ایک طرح کے طوراطوار اور خصائل و شمائل کو پیدا کرتا ہے۔ اس کے افراد میں کتنی بھی وسعت پیدا ہوجائے، اس کے معاملات کی پختگی، اس کی معاشرت کی شائستگی، اس کے اخلاق کے پیمانوں میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ قرآن کریم دل و دماغ کو ایک متعین فکر فراہم کرتا ہے۔ وہ انسان کو صراط مستقیم پر چلاتا ہے، ایمان و عمل اس کی پہچان بن جاتی ہے، خدا ترسی، ہمدردی و غمگساری سے انسانی معاملات میں شائستگی پیدا کرتا ہے۔ گہری نظر سے دیکھنے والا اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ معاشرہ اپنی ایک جڑ رکھتا ہے، یہ قبیلہ اپنا ایک نسب رکھتا ہے، اس کی دنیا متعین آداب سے عبارت ہے جبکہ شعراء کے یہاں کوئی متعین راستہ نہیں، کوئی فکری نظام نہیں، جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے، ان کے جہاز کا لنگر کسی چٹان سے بندھا ہوا نہیں، ان کے خیالات کی کشتیاں طبیعت سے اٹھنے والی لہروں کے ساتھ اپنا راستہ بدلتی رہتی ہیں، ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں، دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہوگیا، جس کو چاہا آسمان پر چڑھا دیا، جسے چاہا قعرمذلت میں گرا دیا، خدا پرستی اور دہریت، مادہ پرستی اور روحانیت، حسن اخلاق اور بداخلاقی، پاکیزگی اور گندگی، سنجیدگی اور ہزل قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو در پہلو ملے گا۔ آپ کسی شاعر کو پڑھتے ہوئے کبھی یہ محسوس کریں گے کہ میں ایک شیطان کو پڑھ رہا ہوں، اور کبھی یوں محسوس ہوگا کہ میں کسی روحانی رہنما کو پڑھ رہا ہوں۔ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے کبھی کسی روک کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے ہیں جو نہ بادہ خوار ہوتا ایسے عظیم دو فرقوں کے حامل کلاموں کو اگر کوئی شخص ایک کہتا ہے یا دونوں کو ایک ہی نام دیتا ہے تو یہ ایک ایسی جسارت ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تیسری کسوٹی ہے جس پر قرآن کریم اور شعراء کے کلام کو پرکھا جاسکتا ہے کہ شاعر گفتار کے غازی ہوتے ہیں۔ کردار سے انھیں کوئی خاص نسبت نہیں ہوتی۔ ان کے دعوئوں کو دیکھو تو ہر میدان کے لاجواب آدمی معلوم ہوتے ہیں، لیکن عمل کی دنیا میں دیکھو تو بالکل صفردکھائی دیتے ہیں۔ جن مکارمِ اخلاق کی تعریف میں وہ آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی انھیں کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس پیغمبر کو دیکھو کہ وہ جو کلام پیش کررہے ہیں اس کا سب سے بڑا عملی نمونہ وہ خود ہیں۔ آپ کا جاننے والا ہر شخص گواہی دیتا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہی کہتے ہیں۔ آپ کے قول و فعل کی مطابقت ایسی صریح حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہ کرسکتا تھا۔ آپ نے جس بندگیِ رب، جن مکارمِ اخلاق اور جس ایثار و قربانی کی دعوت مخلوق کو دی اس پر سب سے زیادہ عمل خود کرکے دکھایا۔ تو ایسے قدسی صفات شخص کو ان شاعروں کی صف میں کھڑا کرنا جن کے اقوال و اعمال میں ادنیٰ مطابقت بھی نہیں ہے، بہت بڑی زیادتی ہے۔ ایک ضروری بات ان آیات کو پڑھتے ہوئے ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کریم کی تنقید دورجا ہلیت کے شعراء پر ہے شعر یا فنِ شعر پر نہیں۔ قرآن کریم اور آپ نے اس دور کے شعراء پر تنقید اس لیے کی ہے کہ ان کی شاعری جن مضامین سے لبریز تھی اسلام انھیں برائیوں، گمراہیوں اور بداخلاقیوں سے روکنے کے لیے آیا تھا۔ شعر دور جاہلیت میں اہل عرب میں ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ایک موثر شاعر اپنی شاعری سے بعض دفعہ قوم میں آگ لگا دیتا تھا اور اس کے اشعار کے اثر سے لوگوں کے تنِ مردہ میں زندگی کا خون دوڑنے لگتا تھا۔ چناچہ ایسا موثر ذریعہ ٔ ابلاغ اگر برائی کی ترویج کے لیے وقف ہو کر رہ جائے تو اس سے بڑی نقصان دہ چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اور اس دور کے شعراء نے اتنی موثر صلاحیت کو جن باتوں کے لیے وقف کر رکھا تھا ان کی حیثیت انسانیت کے لیے سم قاتل سے کم نہ تھی۔ ان کی شاعری کے بیشتر مضامین شہوانیت، عشق بازی، شراب نوشی یا قبائلی منافرت، جنگ و جدل یا نسلی فخر و غور پر مشتمل تھے۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں کہیں خال خال پائی جاتی تھیں۔ چونکہ وہ لوگ فضائلِ اخلاق سے بہت حد تک تہی دامن ہوچکے تھے اس لیے ان کی شاعری جھوٹ، بہتان، ہجو، بیجا تعریف، طعن وتشنیع، مشرکانہ خیالات اور قبائلی تفاخر میں منحصر ہو کر رہ گئے تھے۔ اور شاعری کی تأثیر کی وجہ سے یہ عیوب ان کی سیرت و کردار کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی شاعری اور ایسے شاعروں کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کبھی تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھ سکتے تھے بلکہ اس کو یکسر بدل ڈالنا یا ختم کردینا ان کے مشن کا بنیادی جز تھا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ایسی ہی شاعری کے بارے میں فرمایا لِاَنْ یَّمْتَلِیَٔ جَوْفُ اَحْدِکُمْ قَیْحًا خَیْرٌلَـہٗ مِنْ اَنْ یَّمْتَلِیَٔ شَعْراً ” تم میں سے کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جائے، اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے۔ “ ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ یہ بات کسی حد تک مسلمہ ہے کہ مبالغہ شعر کا ایک لازمی وصف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شعر میں اگر مبالغہ نہ ہو تو میں میں شعریت یا شعری حسن پیدا نہیں ہوتا۔ اور ادھر حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی دنیا میں اظہارِ حقیقت اور راست گوئی کا نمونہ بن کر آتا ہے۔ وہ اگر تعریف کرتا ہے تو حقیقت سے آگے نہیں بڑھتا اور اگر کسی پر تنقید کرتا ہے تو صداقت سے نیچے نہیں گرتا۔ اس کی ذات، اس کی ہر بات اور اس کا ہر عمل انسانوں کے لیے میزان کی حیثیت رکھتا ہے جس کا کوئی پلڑا نہ اٹھتا ہے اور نہ جھکتا ہے۔ اسی لیے اس کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ اس تقابل کو دیکھ کر بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو شعر سے مناسبت کیوں نہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شعر گوئی کی صلاحیت کیوں نہ عطا فرمائی۔ سورة یٰسین میں پروردگار نے اس کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے فرمایا وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَایَنْبَغِیْ لَـہٗ ” ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شعر سے دلچسپی نہ تھی۔ دورانِ گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیرموزوں پڑھ جاتے تھے یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہوجاتا۔ حضرت حسن بصری ( رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دورانِ تقریر میں آپ ﷺ نے شاعر کا مصرع یوں نقل کیا : کفی بالاسلام والشیب للمرء ناھیا حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے عرض کیا، یارسول اللہ ! اصل مصرع یوں ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا اور بھی اس طرح کی کئی مثالیں روایات میں موجود ہیں۔ ایسے موقعوں پر حضرت ابوبکر صدیق ( رض) عام طور پر عرض کرتے، یارسول اللہ ! شعر اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے۔ تو آپ ﷺ فرماتے کہ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ نے اچھے اشعار کو ہمیشہ پسند فرمایا، اور اچھے شعراء کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی۔ اور آپ ﷺ نے یہ اصولی بات فرمائی حسن الشعرکحسن الکلام قبیحہ کقبیح الکلام ” اچھا شعر اچھے کلام کی طرح ہے اور برا شعر برے کلام کی طرح ہے۔ “ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان من الشعر لحکمۃ ” بعض اشعار میں بڑی دانائی کی باتیں ہوتی ہیں۔ “
Top