Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 222
تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ
تَنَزَّلُ : وہ اترتے ہیں عَلٰي : پر كُلِّ : ہر اَفَّاكٍ : بہتان لگانے والا اَثِيْمٍ : گنہگار
وہ اترتے ہیں ہر جھوٹ گھڑنے والے بدکار پر
وَالشُّعَرَآئُ یَـتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ ۔ اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْن۔ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالاَ یَفْعَلُوْنَ ۔ اِلاَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِمَاظُلِمُوْا ط وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ۔ (الشعرآء : 224 تا 227) (اور شعراء، بہکے ہوئے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں ایسی باتیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے جنھوں نے نیک اعمال کیے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا، اور انھوں نے بدلہ لیا اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور عنقریب جان لیں گے جنھوں نے ظلم و ستم کیے کہ ان کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے۔ ) آنحضرت ﷺ پر شاعر ہونے کے الزام کی تردید مخالفین جس طرح آنحضرت ﷺ کو کاہن قرار دیتے تھے اور جس کی تردیدہم گزشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں، اسی طرح وہ آپ ﷺ کو شاعر بھی قرار دیتے تھے حالانکہ ان کا وہ بالائی طبقہ جو شعرفہمی میں ایک مقام رکھتا تھا اس نے کبھی آنحضرت ﷺ کو شاعر قرار نہیں دیا اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا قرآن کریم شعر کی زبان میں نازل ہوا ہے تو وہ اسے شعر کہنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ البتہ جس بات نے انھیں مجبور کیا کہ قرآن کریم کو شاعری کی کتاب اور آنحضرت ﷺ کو ایک شاعر قرار دیں وہ یہ بات تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر قرآن کریم کو پیش کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کیونکہ مجھ پر قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی کتاب نازل ہوئی ہے۔ اور پھر قرآن کریم کے اعجاز کو قرآن اور اپنی حقانیت کی دلیل ٹھہرایا اور چیلنج کیا کہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں سمجھتے تو پھر اس کی مثال لا کر دکھائو۔ تو اب ان کے لیے آنحضرت ﷺ کی نبوت سے انکار کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی تھی کہ وہ قرآن کریم کے اعجاز اور اس کی فصاحت و بلاغت کو شعر کا نتیجہ قرار دیں اور آنحضرت ﷺ کو شاعر ثابت کریں۔ اور لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ تم جس کتاب کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے اسے آسمانی کلام ماننے پر مجبور ہورہے ہو اس کی یہ فصاحت و بلاغت کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں شاعروں کے کلام میں نظر آتی ہے۔ اس لیے محمد ﷺ پیغمبر نہیں بلکہ شاعر ہیں۔ البتہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ قرآن کریم میں جو فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اس کا جواب کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ سب سے بڑے شاعر ہیں، لیکن یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ اس قرآن کی دلیل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو شاعر قرار دے کر وہ ایک اور پہلو سے بھی آپ ﷺ کی نبوت کے بارے میں لوگوں میں بدگمانیاں پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ کہ شاعروں کے بارے میں عام طور پر اہل عرب یہ تصور رکھتے تھے کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اس کو شعر الہام کرتا ہے۔ تو محمد ﷺ چونکہ ایک شاعر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایک جن لگا ہوا ہے جو ان پر خوبصورت کلام القاء کرتا ہے۔ محمد ﷺ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ کوئی فرشتہ ہے حالانکہ یہ ویسا ہی جن ہے جیسا ہر بڑے شاعر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے پیش نظر آیات کریمہ میں تین کسوٹیاں رکھ دی ہیں جس پر پرکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کسی شاعر کا کلام ہے یا کلام ربانی ہے۔ اور اس کا سنانے والا کوئی شاعر ہے یا اللہ تعالیٰ کا رسول۔ فیصلہ کن تین کسوٹیاں پہلی کسوٹی یہ پیش کی گئی ہے کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح کوئی کلام بھی اس بات سے پہچانا جاتا ہے کہ اس نے اپنے زیراثر لوگوں کو کس طرح کی سیرت و کردار سے آراستہ کیا ہے اور اس کے پڑھنے اور سننے والے اپنے اندر کیسے خصائل رکھتے ہیں۔ شعراء اور ان کا کلام آپ کے سامنے ہے اور ان کے پڑھنے والوں کی زندگیاں بھی آپ کے گردوپیش میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح محمد ﷺ نے جن لوگوں کو اپنی تعلیم و تربیت سے جس رنگ میں رنگا ہے، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ دونوں کا تقابل کرکے دیکھ لو، اگر تو دونوں کی زندگیوں کا رنگ ایک جیسا ہے، ان کے طوراطوار یکساں ہیں، ان کے اہداف ملتے جلتے ہیں، ان کے اعمال ایک دوسرے سے مشابہ ہیں، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی دونوں شاعر ہیں اور دونوں کا کلام یکساں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف انتہائی سنجیدگی، تہذیب، شرافت، راست بازی اور خدا ترسی ہے، بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے، برتائو میں لوگوں کے حقوق کا پاس ولحاظ ہے، معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے۔ اور دوسری طرف شعراء کے ساتھی گمراہ، اوباش، عیاش اور شرپسند قسم کے لوگ ہیں جن کی زندگیاں فسق و فجور سے عبارت ہیں، جن کا سب سے بڑا ہدف عشق بازی اور شراب نوشی ہے اور جن کی دلچسپیاں حسن پرستی، شہوانیت اور جنسی مواصلت کے گرد گھومتی ہیں، جنھوں نے کبھی قوم کو اتفاق و اتحاد کی دولت دینے کی بجائے ہمیشہ بکر و تغلب کی لڑائیوں جیسے فسادات میں مبتلا کیا ہے، جو اخلاق کی بندشوں سے آزاد، جذبات و خواہشات کی رو میں بہنے والے اور لطف و لذت کے پرستار، نیم حیوان قسم کے لوگ ہیں جن کے ذہن کو کبھی یہ خیال چھو کر بھی نہیں گیا کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کا کوئی بلند تر نصب العین بھی ہے۔ تو ان دونوں کرداروں کو دیکھ کر اور زندگی کے ان دو نمونوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دونوں نمونے یکساں ہیں اور جس کلام کے زیراثر یہ دو الگ الگ نمونے تیار ہوئے ہیں اس کلام کا منبع ومصدر ایک ہی ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری کسوٹی جس پر پرکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کا پیش کرنے والا اللہ تعالیٰ کا رسول ہے یا وہ ایک عظیم شاعر اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے۔ یہ ہے کہ ان شاعروں کا حال یہ ہے کہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی ان کا توسن فکر ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ ان کے فکر کی کوئی بنیاد نہیں۔ جس طرح ہر درخت اپنی جڑ سے پھوٹتا ہے آہستہ آہستہ تنا بنتا ہے، پھر اس سے شاخیں پھوٹتی ہیں اور باغ و بہار لاتا ہے لیکن وہ اپنی جڑ سے کبھی بےنیاز نہیں ہوتا اور نہ اس کے پھل اس کی حقیقت سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ یہی حال انسان کا بھی ہے کہ اگر اس کے عقائد متعین ہیں، اس کی سوچ کا راستہ مقرر ہے، اس کی منزل طے شدہ ہے، اس کے اہداف واضح ہیں وہ ایک طرح کے طوراطوار اور خصائل و شمائل کو پیدا کرتا ہے۔ اس کے افراد میں کتنی بھی وسعت پیدا ہوجائے، اس کے معاملات کی پختگی، اس کی معاشرت کی شائستگی، اس کے اخلاق کے پیمانوں میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ قرآن کریم دل و دماغ کو ایک متعین فکر فراہم کرتا ہے۔ وہ انسان کو صراط مستقیم پر چلاتا ہے، ایمان و عمل اس کی پہچان بن جاتی ہے، خدا ترسی، ہمدردی و غمگساری سے انسانی معاملات میں شائستگی پیدا کرتا ہے۔ گہری نظر سے دیکھنے والا اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ معاشرہ اپنی ایک جڑ رکھتا ہے، یہ قبیلہ اپنا ایک نسب رکھتا ہے، اس کی دنیا متعین آداب سے عبارت ہے جبکہ شعراء کے یہاں کوئی متعین راستہ نہیں، کوئی فکری نظام نہیں، جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے، ان کے جہاز کا لنگر کسی چٹان سے بندھا ہوا نہیں، ان کے خیالات کی کشتیاں طبیعت سے اٹھنے والی لہروں کے ساتھ اپنا راستہ بدلتی رہتی ہیں، ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں، دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہوگیا، جس کو چاہا آسمان پر چڑھا دیا، جسے چاہا قعرمذلت میں گرا دیا، خدا پرستی اور دہریت، مادہ پرستی اور روحانیت، حسن اخلاق اور بداخلاقی، پاکیزگی اور گندگی، سنجیدگی اور ہزل قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو در پہلو ملے گا۔ آپ کسی شاعر کو پڑھتے ہوئے کبھی یہ محسوس کریں گے کہ میں ایک شیطان کو پڑھ رہا ہوں، اور کبھی یوں محسوس ہوگا کہ میں کسی روحانی رہنما کو پڑھ رہا ہوں۔ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے کبھی کسی روک کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے ہیں جو نہ بادہ خوار ہوتا ایسے عظیم دو فرقوں کے حامل کلاموں کو اگر کوئی شخص ایک کہتا ہے یا دونوں کو ایک ہی نام دیتا ہے تو یہ ایک ایسی جسارت ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تیسری کسوٹی ہے جس پر قرآن کریم اور شعراء کے کلام کو پرکھا جاسکتا ہے کہ شاعر گفتار کے غازی ہوتے ہیں۔ کردار سے انھیں کوئی خاص نسبت نہیں ہوتی۔ ان کے دعوئوں کو دیکھو تو ہر میدان کے لاجواب آدمی معلوم ہوتے ہیں، لیکن عمل کی دنیا میں دیکھو تو بالکل صفردکھائی دیتے ہیں۔ جن مکارمِ اخلاق کی تعریف میں وہ آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی انھیں کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس پیغمبر کو دیکھو کہ وہ جو کلام پیش کررہے ہیں اس کا سب سے بڑا عملی نمونہ وہ خود ہیں۔ آپ کا جاننے والا ہر شخص گواہی دیتا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہی کہتے ہیں۔ آپ کے قول و فعل کی مطابقت ایسی صریح حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہ کرسکتا تھا۔ آپ نے جس بندگیِ رب، جن مکارمِ اخلاق اور جس ایثار و قربانی کی دعوت مخلوق کو دی اس پر سب سے زیادہ عمل خود کرکے دکھایا۔ تو ایسے قدسی صفات شخص کو ان شاعروں کی صف میں کھڑا کرنا جن کے اقوال و اعمال میں ادنیٰ مطابقت بھی نہیں ہے، بہت بڑی زیادتی ہے۔ ایک ضروری بات ان آیات کو پڑھتے ہوئے ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کریم کی تنقید دورجا ہلیت کے شعراء پر ہے شعر یا فنِ شعر پر نہیں۔ قرآن کریم اور آپ نے اس دور کے شعراء پر تنقید اس لیے کی ہے کہ ان کی شاعری جن مضامین سے لبریز تھی اسلام انھیں برائیوں، گمراہیوں اور بداخلاقیوں سے روکنے کے لیے آیا تھا۔ شعر دور جاہلیت میں اہل عرب میں ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ایک موثر شاعر اپنی شاعری سے بعض دفعہ قوم میں آگ لگا دیتا تھا اور اس کے اشعار کے اثر سے لوگوں کے تنِ مردہ میں زندگی کا خون دوڑنے لگتا تھا۔ چناچہ ایسا موثر ذریعہ ٔ ابلاغ اگر برائی کی ترویج کے لیے وقف ہو کر رہ جائے تو اس سے بڑی نقصان دہ چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اور اس دور کے شعراء نے اتنی موثر صلاحیت کو جن باتوں کے لیے وقف کر رکھا تھا ان کی حیثیت انسانیت کے لیے سم قاتل سے کم نہ تھی۔ ان کی شاعری کے بیشتر مضامین شہوانیت، عشق بازی، شراب نوشی یا قبائلی منافرت، جنگ و جدل یا نسلی فخر و غور پر مشتمل تھے۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں کہیں خال خال پائی جاتی تھیں۔ چونکہ وہ لوگ فضائلِ اخلاق سے بہت حد تک تہی دامن ہوچکے تھے اس لیے ان کی شاعری جھوٹ، بہتان، ہجو، بیجا تعریف، طعن وتشنیع، مشرکانہ خیالات اور قبائلی تفاخر میں منحصر ہو کر رہ گئے تھے۔ اور شاعری کی تأثیر کی وجہ سے یہ عیوب ان کی سیرت و کردار کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی شاعری اور ایسے شاعروں کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کبھی تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھ سکتے تھے بلکہ اس کو یکسر بدل ڈالنا یا ختم کردینا ان کے مشن کا بنیادی جز تھا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ایسی ہی شاعری کے بارے میں فرمایا لِاَنْ یَّمْتَلِیَٔ جَوْفُ اَحْدِکُمْ قَیْحًا خَیْرٌلَـہٗ مِنْ اَنْ یَّمْتَلِیَٔ شَعْراً ” تم میں سے کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جائے، اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے۔ “ ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ یہ بات کسی حد تک مسلمہ ہے کہ مبالغہ شعر کا ایک لازمی وصف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شعر میں اگر مبالغہ نہ ہو تو میں میں شعریت یا شعری حسن پیدا نہیں ہوتا۔ اور ادھر حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی دنیا میں اظہارِ حقیقت اور راست گوئی کا نمونہ بن کر آتا ہے۔ وہ اگر تعریف کرتا ہے تو حقیقت سے آگے نہیں بڑھتا اور اگر کسی پر تنقید کرتا ہے تو صداقت سے نیچے نہیں گرتا۔ اس کی ذات، اس کی ہر بات اور اس کا ہر عمل انسانوں کے لیے میزان کی حیثیت رکھتا ہے جس کا کوئی پلڑا نہ اٹھتا ہے اور نہ جھکتا ہے۔ اسی لیے اس کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ اس تقابل کو دیکھ کر بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو شعر سے مناسبت کیوں نہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شعر گوئی کی صلاحیت کیوں نہ عطا فرمائی۔ سورة یٰسین میں پروردگار نے اس کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے فرمایا وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَایَنْبَغِیْ لَـہٗ ” ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شعر سے دلچسپی نہ تھی۔ دورانِ گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیرموزوں پڑھ جاتے تھے یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہوجاتا۔ حضرت حسن بصری ( رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دورانِ تقریر میں آپ ﷺ نے شاعر کا مصرع یوں نقل کیا : کفی بالاسلام والشیب للمرء ناھیا حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے عرض کیا، یارسول اللہ ! اصل مصرع یوں ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا اور بھی اس طرح کی کئی مثالیں روایات میں موجود ہیں۔ ایسے موقعوں پر حضرت ابوبکر صدیق ( رض) عام طور پر عرض کرتے، یارسول اللہ ! شعر اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے۔ تو آپ ﷺ فرماتے کہ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ نے اچھے اشعار کو ہمیشہ پسند فرمایا، اور اچھے شعراء کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی۔ اور آپ ﷺ نے یہ اصولی بات فرمائی حسن الشعرکحسن الکلام قبیحہ کقبیح الکلام ” اچھا شعر اچھے کلام کی طرح ہے اور برا شعر برے کلام کی طرح ہے۔ “ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان من الشعر لحکمۃ ” بعض اشعار میں بڑی دانائی کی باتیں ہوتی ہیں۔ “
Top