Taiseer-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 222
تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ
تَنَزَّلُ : وہ اترتے ہیں عَلٰي : پر كُلِّ : ہر اَفَّاكٍ : بہتان لگانے والا اَثِيْمٍ : گنہگار
وہ ہر جعل ساز، گنہگار 132 پر نازل ہوتے ہیں۔
132 پہلے یہ بیان ہو رہا تھا کہ قرآن جیسی عظیم الشان کتاب کی تنزیل شیطانوں کے بس کا روگ نہیں اور یہ بات ناممکنات سے کہ وہ اس جیسی ایک آیت بھی لاسکیں۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے۔ شیطان کیسی چیز اتارتے ہیں اور کیسے لوگوں پر اترتے ہیں۔ شیطان صرف جھوٹوں، بدمعاشوں اور بدکاروں پر اترتے ہیں۔ و دیانتدار، راست باز اور نیک لوگوں سے بیزار ہوتے ہیں اور انھیں برا جانتے ہیں۔ وہ جھوٹے اور دغا باز قسم کے لوگوں پر خوش ہوتے ہیں اور یہی لوگ ان کی مرضی کے موافق ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگ شیطانوں کے القاء کے مطابق کہانت کا کاروبار چلاتے ہیں اور ان سے مراد کاہن، جوتشی، فال نکالنے والے، رمال، جنار اور حامل قسم کے لوگ ہیں جو اپنی غیب دانی کا ڈھونگ رچاتے، لچھے دار باتیں بناتے اور لوگوں کو ان کی قسمتیں بتاتے پھرتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ جنوں کی تسخیر اور مؤکلوں کے ذریعہ لوگوں کی بگڑی بناتے ہیں۔ اور اس سے ان کا مقصد محض پیسہ بٹورنا ہوتا ہے۔ دور نبوی میں مدینہ میں بھی ایک ایسا کاہن رہتا تھا جس کا نام ابن صیاد تھا جو غیب کی خبریں بتلایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسولہوں ؟ وہ کہنے لگا : میں گواہی دیتا ہوں کہ ان پڑھوں کا رسول ہے پھر اس نے آپ ~ سے پوچھا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ آپ~صل 3~ نے اسے ٹھونکا مارا اور فرمایا : اللہ تجھے تیری حد سے آگے نہ بڑھنے دے گا۔ پھر آپ ~ نے پوچھا : اچھا بتلاؤ۔ اس وقت میرے دل میں کیا ہے۔ اس وقت آپ کے دل میں سورة دخان کا خیال آرہا تھا۔ اسنے کہا دخ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ حضرت عمر ؓ اور بعض دوسرے صحابہ اسے دجال خیال کرتے تھے۔ چناچہ حضرت عمر ؓ نے آپ ~ سے اس کو قتل کرنے کی اجازت بھی طلب کی۔ آپ نے حضرت عمر ؓ کو اس کام سے روک دیا اور فرمایا : اگر فی الواقع دجال ہے تو اس کی موت تیرے ہاتھوں واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ دجال نہیں تو اسے قتل کرنے درست نہیں۔ (بخاری۔ کتاب القدر۔ باب قولہ تعالی۔ یحول بین المروقلبہ ( اب اس کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی زندگی کو دیکھا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے ان لوگوں کی راست بازی، صدق، امانت و دیانت، پرہیزگاری اور خوش اخلاقی وغیرہ ایسے اوصاف ہیں جن کی ان بدکرداروں کو ہوا بھی نہیں لگی ہوتی۔
Top