Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 52
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَحَسَّ
: معلوم کیا
عِيْسٰى
: عیسیٰ
مِنْھُمُ
: ان سے
الْكُفْرَ
: کفر
قَالَ
: اس نے کہا
مَنْ
: کون
اَنْصَارِيْٓ
: میری مدد کرنے والا
اِلَى
: طرف
اللّٰهِ
: اللہ
قَالَ
: کہا
الْحَوَارِيُّوْنَ
: حواریّ (جمع)
نَحْنُ
: ہم
اَنْصَارُ
: مدد کرنے والے
اللّٰهِ
: اللہ
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَاشْهَدْ
: تو گواہ رہ
بِاَنَّا
: کہ ہم
مُسْلِمُوْنَ
: فرماں بردار
اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیاتو آپ نے دعوت دی کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور ہم ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْـکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ ج اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ج وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ رَبَّـنَـآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِیْنَ ۔ (اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیاتو آپ نے دعوت دی کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور ہم ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے اس چیز پر جو تو نے اتاری اور ہم نے رسول کی پیروی کی، سو تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ) (52 تا 53) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قوم کے قابل ذکر اور با اثر لوگوں سے مایوس ہو کر عام لوگوں کی طرف رخ فرمایا۔ اس سے ہمیں پیغمبروں کی سنت سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور حکمت تبلیغ کو جاننے کی بھی۔ پیغمبروں کی سنت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ دعوت تو سب کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن اپنا خصوصی ہدف ان لوگوں کو بناتے ہیں، جن کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر یہ لوگ راہ راست پر آجائیں تو ان کے زیر اثر لوگ ان کی اس نئی تبدیلی کی پیروی کریں گے کیونکہ لوگوں میں ہمیشہ یہ کمزوری رہی ہے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مَلُوْکِہِمْ (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) کسی بھی قوم کا فیڈ کرنے والا طبقہ بالعموم وہی لیڈ بھی کرتا ہے۔ جن باتوں کو وہ قبول کرلیتے ہیں وہی باتیں عام لوگوں کا معمول بن جاتی ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو پیغمبروں کی دعوت میں ہمیشہ پیش نظر رہی ہے۔ مدینہ طیبہ میں حضرت اسعد بن زرارہ نے، حضرت مصعب بن عمیر کو اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی، چناچہ ان کی کوششوں نے عام لوگوں سے پہلے اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ کو اپنا ہدف بنایا اور ان کے واسطے سے چند ہی دنوں میں ان کے قبیلوں کے بیشتر لوگوں کو مسلمان کردیا۔ آنحضرت ﷺ بھی اسی حکمت کے پیش نظر اشرافِ قریش کو اپنی توجہات کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سورة عبس و تولی اور بعض دوسری آیات میں آپ کو توجہ دلائی گئی کہ ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا، آپ عام لوگوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنایئے۔ عوام میں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو جن لوگوں کی طرف سے کسی حد تک پذیرائی ملی قرآن کریم نے انھیں حواری کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ حواری ” حَوَرَ “ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی لغت میں ” سفیدی “ کے ہیں۔ وجہ تسمیہ کے سلسلے میں لوگوں نے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ یہ لوگ دھوبی تھے۔ دھوبی کا کام چونکہ کپڑے کو سفید کرنا ہے اس لیے انھیں حواری کہا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ لوگ جب ایمان کی طرف بڑھے تو صفائیِ قلب اور اخلاص کے جوش سے بڑھے تو ان کی اسی قلبی صفائی کو دیکھتے ہوئے انھیں حواری کے نام سے یاد کیا گیا۔ مزید برآں ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہ لفظ عبرانی سے عربی میں آیا اور اس کے لغوی مفہوم میں اہل لغت کا اختلاف ہے۔ لیکن راجح تر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس لفظ کے معنی ” خیرخواہ، حامی، ناصر اور مددگار “ کے ہیں۔ جس طرح اوس و خزرج کے لوگوں نے اپنے اخلاصِ قلب اور نصرت و جانثاری سے آنحضرت ﷺ سے اپنے لیے انصار کا لقب حاصل کرنے کا اعزاز پایا، اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے پاکیزہ اطوار اور جوشِ فدائیت کی وجہ سے حواری، یعنی انصار کے نام سے پکارے گئے۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے اخلاص اور جانثاری کو دیکھتے ہوئے نہایت شفقت اور دل سوزی سے شب و روز ان کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہی لوگ داعی، نقیب اور آپ کے پیغامبر بن کر بنی اسرائیل کی ایک ایک بستی میں پہنچے۔ تاریخ اس سے متعلق کچھ زیادہ خبر نہیں دیتی کہ ان لوگوں کی کاوشوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو نفوذ کا کہاں تک موقع ملا، لیکن آپ کے رفع الی السمآء کے بعد یہی لوگ ہیں جن کی محنت کے ثمرات پھیلتے پھیلتے ملکوں کو اپنے دامن میں لینے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کہنا یہ مقصود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب بنی اسرائیل کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے یہ محسوس کرلیا کہ وہ مجھے مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ نے اپنی ساری توجہ کا رخ غریبوں کی طرف عموماً اور حواریوں کی طرف خصوصاً پھیر دیا۔ وہ مخالفتوں سے بالکل دلبرداشتہ نہیں ہوئے، حالات کے بگاڑ نے انھیں دل شکستہ نہیں کیا بلکہ انھوں نے حواریوں اور عام لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِاس جملے میں بعض باتیں خود بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ حالات تمہارے سامنے ہیں، فرض ہم سب کو پکار رہا ہے، یہ وقت نہیں کہ میں اس کی اہمیت اور افادیت پر بحث کروں، ایک سوالیہ نشان تمہارے سامنے ہے کہ بتائو اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے کون میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے ؟ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے بغیر کسی تأمل کے اس راہ پر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نتائج کچھ بھی ہوں، مجھے بہرحال ان طوفانوں سے ٹکرانا ہے۔ تم یہ بتائو کہ تم میرا ساتھ دینے کے لیے کہاں تک تیار ہو ؟ ” الٰی “ کا لفظ لا کر اظہارِ حقیقت کا حق بھی ادا کردیا کہ میں جس راستے کی دعوت دے رہا ہوں، وہ پھولوں کی سیج نہیں، اس میں قدم قدم پر بلائوں کا ہجوم ہے۔ وہ ایک طویل مسافت ہے جس میں کانٹوں پر چلنا ہوگا۔ اس راستے میں کہکشائیں نہیں ہوتیں بپھرے ہوئے طوفان ہوتے ہیں، جس میں چاروں طرف نہنگوں کے حملے بھی ہیں، جو شخص اپنی ذات کے تحفظ کا اسیر ہے اس کے لیے اس راستے میں کوئی جگہ نہیں ؎ یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری لیکن یہ کس قدر خوشگوار حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ جن کے ایمان لانے کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں، لیکن اللہ جب کسی دل کو نور ایمان سے بھرنا چاہتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قبولیت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ چناچہ اس راستے کی وہ مشکلات جسے برداشت کرنے کے لیے ایک طویل ریاضت چاہیے، اللہ کو جب منظور ہوتا ہے، وہ ایک جست میں تمام ہوجاتی ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ؎ عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام اس زمین و آسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں وہ بےساختہ پکار اٹھے نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ (ہم ہیں اللہ کے مددگار) اور آپ گواہ رہئے کہ ہم صرف دعویٰ کرنے والے لوگ نہیں بلکہ اس عظیم صداقت کو قبول کرنے کے بعد اس پر چلنے کے جو اور جیسے تقاضے ہیں، آپ ہمیں اس پر بھی ثابت قدم پائیں گے۔ غور فرمایئے ! حواری جس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ ” مسلم ہونا “ ہے اور پھر اسلام کے راستے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان پر اپنے قول و عمل سے اور ضرورت پڑی تو قربانیوں سے شہادت کا حق ادا کرنا ہے۔ لیکن بعد میں حواریوں کے نام لیوائوں اور ماننے والوں نے اپنی ایمانی زندگی کو جس طرح نصرانیت کا نام دیا یہاں اس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ وہ اپنی زندگی شہادتِ حق میں کھپا دینا چاہتے ہیں اور کتمانِ حق سے انھیں حد درجہ نفور ہے۔ لیکن بعد کے آنے والوں نے شہادتِ حق تو دور کی بات ہے کتمانِ حق کی ہی نہیں، انکارِ حق کی مثالیں قائم کیں۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے سوال اور حواریوں کے جواب کو دیکھتے ہوئے دو باتیں فوری طور پر ذہن میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اللہ کا کوئی رسول چاہے وہ اپنی ذات میں کتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو اور بیشک اس کی پشت پر عناصرِ قدرت ہی کارفرما کیوں نہ ہوں اور بیشک اس کی ہمنوائی میں عناصرِفطرت اس کے ہمرکاب ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کا قانون یہ ہے کہ جس طرح زمین سے غذا پیدا کرنا کئی ہاتھوں کے تعاون سے ممکن ہوتا ہے، جس طرح دنیا کا ہر کام اسباب کی ترتیب سے وجود میں آتا ہے۔ سورج کا کام زمین سے پانی کھینچ کر ابر کی چادریں بچھانا ہے، لیکن ابر کا برسنا سورج سے ماورا ایک کام ہے۔ ابر برستا ہے لیکن زمین میں ایک خاص مقدار تک پانی کا سرایت کرنا اور باقی ندی نالوں میں واپس چلے جانا، یہ ابر کے بس کی بات نہیں۔ کاشتکار زمین میں ہل چلاتا ہے، سہاگہ دیتا ہے، تخم ریزی کرتا ہے، نگہبانی کے فرائض انجام دیتا ہے، لیکن زمین کے سینے سے غلے کا اگانا، پھر اس کو رفتہ رفتہ بڑھانا، کاشتکار کی قدرت سے باہر کی چیز ہے۔ پھر خوشہ گندم میں دانوں کا پکانا اور پھلوں میں گداز پیدا کرنا یہ زمین کا نہیں سورج اور چاند کا کام ہے۔ مختصر یہ کہ یہاں ہر چھوٹا بڑا کام اپنے اتمام کو پہنچنے کے لیے اسباب کا محتاج ہے حالانکہ جس پروردگار نے یہ اسباب پیدا فرمائے ہیں، وہ براہ راست بھی ہر کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے پیغام کا لوگوں تک پہنچنا، دلوں میں سرایت کرنا، قبولیت کی صورت اختیار کرنا، عمل کے قالب میں ڈھلنا، ایک تحریک بن جانا، پھر انقلاب کی صورت بن کر لا دینیت کے خس و خاشاک کو بہا کے لے جانا اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نام اور اس کے پیغام کا ڈنکا بجنا صرف اللہ کے نبی کا کام نہیں۔ اللہ کا نبی یقینا اس کام کا داعی، اس کی تشکیل دینے والا، اس راستے میں استقامت کی تصویر، حق کا علمبردار، مینارہ نور، اپنی ذات میں حجت کامل اور پیغام اور معجزات کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود تنہا اس انقلاب کو برپا نہیں کرتا جسے اعلائے کلمتہ الحق کہتے ہیں، جو اللہ کے نبیوں کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ جس طرح اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے، اللہ سے مدد مانگتا ہے، اسی طرح وہ لوگوں سے بھی مدد چاہتا ہے اور پروردگار کے حضور یہ درخواست کرتا ہے یا اللہ ! اسلامی دعوت کی توانائی کے لیے عمر یا ابوجہل میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دیدے۔ وہ بار بار لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی اللہ سے التجائیں کرتا ہے۔ ایک ایک دروازے پر دستک دیتا ہے، ، ایک ایک کا دامن کھینچتا ہے کہ لوگو ! اس کام میں میرا ساتھ دو ، میں تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہوں۔ یہ وہ سنت رسالت ہے جو تمام انبیاء و رسل میں برابر کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ جیسے جیسے حالات ناموافق اور سرکش ہوتے جاتے ہیں، ویسے ویسے پیغمبر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے ساتھ ساتھ بندوں کو بھی زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضرتِ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی انبیاء و رسل کی اسی سنت کے مطابق حواریوں کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مدد اور نصرت کے لیے پکارا۔ ممکن ہے اس سوال کی تفصیلات کچھ اور بھی ہوں جس کا قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا، لیکن حواریوں کے جواب سے وہ مترشح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان سے صرف یہی نہیں کہا گیا کہ مخالفین مخالفت میں سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں، ان کے دل اللہ کے دین کے لیے پتھر ہوگئے ہیں، میں یہ نعمت عظمیٰ تمہارے پاس لے کے آیا ہوں، آگے بڑھو اور اپنی قسمت بنا لو۔ معلوم ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہوگا کہ جس طرح یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں بلا کم وکاست بغیر خطرات کی پرواہ کیے اللہ کا دین لوگوں تک پہنچائوں اور پھر اس راستے میں مصائب پر استقامت دکھاتے ہوئے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دوں کہ اگر یہ دین سچا نہ ہوتا تو اللہ کا یہ بندہ اس پر دکھ اور تکلیفیں کیوں اٹھاتا ؟ اور جن لوگوں کو میں دیکھوں کہ وہ علم اور عقل کی بات سمجھنے سے عاری ہیں تو میں اللہ کی توفیق سے ان کے سامنے معجزات بھی ظاہر کروں۔ اسی طرح تمہارا بھی یہ کام ہے کہ تم میری ہمنوائی میں اس دعوت کے دائرے کو پھیلا دو ، گلی کوچوں میں اس دعوت کو لے کر چیختے پھرو۔ دنیا کی مخالفتوں پر صبر کرتے ہوئے اللہ کے دین کی سچائی کی گواہی دے دو ۔ جب ایک بات بار بار بلند آہنگی سے اور خطرات سے بےنیازہو کر کہی جاتی ہے تو سننے والا یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس شخص کا ایک ایک قول اور ایک ایک عمل اور پھر اس پر بےپناہ صبر اس کی دعوت کی صداقت کی ایک ایسی دلیل اور گواہی ہے جس سے بڑی گواہی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اللہ کی بیشمار قدرتوں کا ظہور اس کے وجود کی گواہی ہے۔ اہل علم کا زندگی بھر علم کے زور سے اس کی ذات وصفات اور اس کے دین کی سربلندی کو ثابت کرنا یہ ان کی گواہی ہے۔ اسی طرح عام آدمی کا اللہ کے دین پر ایمان لا کر برے سے برے حالات میں اس کی موافقت کرنا، اسی کے نعرے لگانا، اسی کی تائید میں اپنا وزن ڈالنا، یہ بھی اللہ کے دین کی سچائی کی گواہی ہے اور اگر کبھی اس کی خاطر جان تک قربان کرنا پڑے تو جان بھی قربان کردینا، یہ وہ شہادتِ عظمیٰ اور سب سے بڑی گواہی ہے جسے ہمیشہ اہل حق نے دنیا میں انجام دیا اور کتنے پیغمبر بھی اس راستے میں یہ شہادت دیتے ہوئے کام آئے۔ معلوم ہوتا ہے جب بھی کافر اسلام دشمنی میں یکجا اور متحد ہوجائیں اور کفر کی قوتیں اپنے اثرات کو مسلمانوں کے گھروں تک پہنچا دیں اور مسلمانوں کی قوت سمٹتی ہوئی دکھائی دینے لگے اور کفر کا غلبہ بڑھتا جائے تو پھر جس طرح ہر مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اس راستے میں جھونک دے اسی طرح اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی مدد کے لیے پکارے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ کون سا موقع ہوگا جب اقبال نے سرعبدالقادر کو پکارا تھا، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ جس طرح ایک ایک مسلمان کو پکارتا تھا اسی طرح اس نے سر عبدالقادر کو پکارتے ہوئے کہا تھا ؎ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خ اور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط اسی ہنگامہ سے محفل تہہ وبالا کر دیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ سننے والے سنتے ہیں یا نہیں، پکارنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ پکار پکار کر سننے والوں پر اتمامِ حجت کر دے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ سننے والے بھی ضرور سنیں گے اور اگر انسان نہیں سنیں گے تو آسمان کے فرشتے اتریں گے۔ اگر دل سخت ہوجائیں گے تو چٹانیں پھٹیں گی، اللہ کا دین سرنگوں ہونے کے لیے نہیں آیا، اسے کفر کبھی ختم نہیں کرسکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) نے دریا کے مچھیروں یا گھاٹ کے دھوبیوں کو پکارا اور اپنی ہمنوائی میں لے کر ان کے اندر وہ روح پھونک دی کہ خود تو اللہ کی مشیت کے مطابق آسمانوں پر اٹھا لیے گئے، لیکن آنے والے دنوں میں ان چند حواریوں کی مساعی نے دور دور تک اس دعوت کو پھیلایا اور آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری تک نصاریٰ میں جو ایک قابل قدر طبقہ باقی رہا جو بالآخر مسلمان بھی ہوا، وہ انھیں حواریوں کی محنت کا ثمر تھا۔ انھوں نے اپنی محنت سے اللہ کے دین کی شہادت دی تو اللہ نے ان کی زندگی اور ذکر کو ایسا دوام بخشا کہ ہمیشہ رہنے والی کتاب میں ان کا تذکرہ شامل فرما دیا۔ قرآن کریم میں اس عبرت آموز داستان اور فکر انگیز حقیقت کو بیان کرنے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ قیامت تک اس کو مشعل راہ بنائے۔ جب بھی کبھی اس پر ایسا وقت آئے کہ کفر کی آندھیاں شمع ہدایت کو بجھانے کے لیے مجتمع ہوجائیں اور مسلمان کا لہو پانی سے ارزاں ہوجائے اور مسلمان بچیوں کی عزتیں اور عفتیں پتنگوں کی طرح کٹنے اور لٹنے لگیں اور امت مسلمہ کا اجتماعی وقار دھجیوں کی صورت ملک ملک اڑتا پھرے اور مسلمانوں کے سربراہ جن کے سپرد مسلمانوں کی پاسبانی، تاریخِ اسلام کی آبیاری اور اللہ کے آخری دین کی سربلندی ہے، وہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو کر دنیا اور دولت دنیا کو اپنا ملجا و ماویٰ بنالیں اور وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے خوشامد اور غداری کی آخری حد تک جانے کو تیار ہوجائیں۔ طبقہ امراء دنیا اور دولت دنیا کو مقصد زندگی قرار دے کر ایک دوسرے سے تنافس میں لگ جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں ایمان بیچنا پڑے، مسلمانوں کی روایات کو پامال کرنا پڑے، تو وہ یہ سب کچھ کر گزرنے کو بھی تیار ہوجائے اور امت کے علماء اور مشائخ اس بات پر قانع ہوجائیں کہ ہماری فتوحات کا سلسلہ چلتا رہے اور حکمران ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے، اجتہاد کے سوتے خشک ہوجائیں، امت سب سے بڑی افرادی قوت ہوتے ہوئے بھی دھرتی کا بوجھ بن جائے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح محسوس ہونے لگے کہ کفر ہمارے وسائلِ حیات پر قابض ہونے کی فکر میں ہے اور اب شائد ہماری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں تو اس وقت امت کی بقا کے لیے ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس کے صاحب علم، صاحب دل، اہل درد اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ اٹھیں، اپنی قلت تعداد کی پرواہ کیے بغیر گلی گلی کوچہ کوچہ حمیت اسلامی کی دہائی دیں، مسلمانوں کو ان کی روایات یاد دلائیں اور ان میں آخرت کی فکر پیدا کریں اور ایک ایک کا دامن کھینچ کر انھیں حالات کا آئینہ دکھانے کی کوشش کریں اور انھیں یقین دلا دیں ؎ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا مسلمانوں کو اس پیش پا افتادہ حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ لا دینیت کا مقابلہ دین سے ہی کیا جاسکتا ہے قوت کا مقابلہ قوت اور اللہ پر بےپناہ بھروسہ ہی کرسکتا ہے۔ کافر اگر صلیبی دور کے بغض سے مسلح ہو کر میدان میں آیا ہے تو ہمیں بھی صلاح الدین ایوبی کی روح کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہماری بقا صلیبیوں کی خوشامد میں نہیں بلکہ اللہ کے بھروسے پر اٹھ کھڑے ہونے میں ہے۔ آج ضرورت ہے کہ وہ آندھی جو افغانستان کو روند چکی اور عراق کو جلائے دے رہی ہے اس کے آنے سے پہلے اپنے ایک ایک تنکے کو سمیٹ لیں۔ اپنی منتشر طاقتوں کی شیرازہ بندی کرلیں۔ طوفانوں کے اٹھنے سے پہلے اپنے بند مضبوط کرلیں۔ پورے عالم اسلام کو دین سے بےوفائی کی سزا مل رہی ہے۔ ہم اس سے وفاداری کا اظہار کر کے اور اپنی سیرت و کردار کی خرابیوں کو دور کر کے اس کی تائید و نصرت کو اپنی طرف متوجہ کرلیں۔ مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب کے قریب کہی جاتی ہے اور دنیا کے بیشتر وسائل پر بھی ان کا قبضہ ہے۔ کمی اگر ہے تو سیرت و کردار میں پختگی کی، مقصد سے لگن کی، دین سے وابستگی کی اللہ ہی سے امید کی لو لگانے کی اور رسول اللہ ﷺ کی محبت، اطاعت اور اتباع کی۔ جدید اور قدیم علوم میں مہارت پیدا کرنے کی اور یہ فیصلہ کرنے کی ہے کہ ہمیں بہرصورت زندہ رہنا ہے، ہمیں ایک آبرومندانہ زندگی گزارنی ہے۔ ہم نے اپنے گھروں، اپنے گلی کوچوں اور اپنے اجتماعی اداروں کی منڈیروں پر حمیت کے چراغ جلانے ہیں۔ ہمیں دنیا کو محبت کا پیغام دینا ہے، لیکن بےغیرتی کے طشت میں رکھ کر نہیں۔ ہمیں دنیا کو مکارمِ اخلاق سے آگاہ کرنا ہے، لیکن فقیری اور ضعیفی کے ساتھ نہیں۔ ہمیں وسعت ظرف کا ثبوت دینا ہے، لیکن شرم و حیا سے خالی ہو کر نہیں۔ ہمیں صنف نازک کو زندگی کے سفر میں ساتھ لے کر چلنا ہے، لیکن کر سٹن کیلر بنا کر نہیں بلکہ فاطمہ اور عائشہ بنا کر۔ ہمیں کسی سے لڑنے اور بگاڑنے کی بجائے اپنا گھر سنوارنا ہے، لیکن دوسروں کو اپنے گھروں میں داخلے کی اجازت دے کر نہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ باور کرانا ہے ؎ تم ہم سے ملو گے تو ہمیں پائو گے مخلص ہرچند کہ اخلاص کا دعویٰ نہیں کرتے ہم لوگ تو درویش ہیں کیا ہم سے الجھنا جو ہم کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کرتے لازم ہے زمانے کو کرے قدر ہماری ہم لوگ کبھی لوٹ کے آیا نہیں کرتے
Top