Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 52
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَحَسَّ : معلوم کیا عِيْسٰى : عیسیٰ مِنْھُمُ : ان سے الْكُفْرَ : کفر قَالَ : اس نے کہا مَنْ : کون اَنْصَارِيْٓ : میری مدد کرنے والا اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ قَالَ : کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریّ (جمع) نَحْنُ : ہم اَنْصَارُ : مدد کرنے والے اللّٰهِ : اللہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاشْهَدْ : تو گواہ رہ بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : فرماں بردار
اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیاتو آپ نے دعوت دی کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور ہم ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْـکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ ج اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ج وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ رَبَّـنَـآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِیْنَ ۔ (اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیاتو آپ نے دعوت دی کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور ہم ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے اس چیز پر جو تو نے اتاری اور ہم نے رسول کی پیروی کی، سو تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ) (52 تا 53) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قوم کے قابل ذکر اور با اثر لوگوں سے مایوس ہو کر عام لوگوں کی طرف رخ فرمایا۔ اس سے ہمیں پیغمبروں کی سنت سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور حکمت تبلیغ کو جاننے کی بھی۔ پیغمبروں کی سنت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ دعوت تو سب کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن اپنا خصوصی ہدف ان لوگوں کو بناتے ہیں، جن کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر یہ لوگ راہ راست پر آجائیں تو ان کے زیر اثر لوگ ان کی اس نئی تبدیلی کی پیروی کریں گے کیونکہ لوگوں میں ہمیشہ یہ کمزوری رہی ہے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مَلُوْکِہِمْ (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) کسی بھی قوم کا فیڈ کرنے والا طبقہ بالعموم وہی لیڈ بھی کرتا ہے۔ جن باتوں کو وہ قبول کرلیتے ہیں وہی باتیں عام لوگوں کا معمول بن جاتی ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو پیغمبروں کی دعوت میں ہمیشہ پیش نظر رہی ہے۔ مدینہ طیبہ میں حضرت اسعد بن زرارہ نے، حضرت مصعب بن عمیر کو اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی، چناچہ ان کی کوششوں نے عام لوگوں سے پہلے اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ کو اپنا ہدف بنایا اور ان کے واسطے سے چند ہی دنوں میں ان کے قبیلوں کے بیشتر لوگوں کو مسلمان کردیا۔ آنحضرت ﷺ بھی اسی حکمت کے پیش نظر اشرافِ قریش کو اپنی توجہات کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سورة عبس و تولی اور بعض دوسری آیات میں آپ کو توجہ دلائی گئی کہ ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا، آپ عام لوگوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنایئے۔ عوام میں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو جن لوگوں کی طرف سے کسی حد تک پذیرائی ملی قرآن کریم نے انھیں حواری کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ حواری ” حَوَرَ “ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی لغت میں ” سفیدی “ کے ہیں۔ وجہ تسمیہ کے سلسلے میں لوگوں نے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ یہ لوگ دھوبی تھے۔ دھوبی کا کام چونکہ کپڑے کو سفید کرنا ہے اس لیے انھیں حواری کہا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ لوگ جب ایمان کی طرف بڑھے تو صفائیِ قلب اور اخلاص کے جوش سے بڑھے تو ان کی اسی قلبی صفائی کو دیکھتے ہوئے انھیں حواری کے نام سے یاد کیا گیا۔ مزید برآں ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہ لفظ عبرانی سے عربی میں آیا اور اس کے لغوی مفہوم میں اہل لغت کا اختلاف ہے۔ لیکن راجح تر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس لفظ کے معنی ” خیرخواہ، حامی، ناصر اور مددگار “ کے ہیں۔ جس طرح اوس و خزرج کے لوگوں نے اپنے اخلاصِ قلب اور نصرت و جانثاری سے آنحضرت ﷺ سے اپنے لیے انصار کا لقب حاصل کرنے کا اعزاز پایا، اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے پاکیزہ اطوار اور جوشِ فدائیت کی وجہ سے حواری، یعنی انصار کے نام سے پکارے گئے۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے اخلاص اور جانثاری کو دیکھتے ہوئے نہایت شفقت اور دل سوزی سے شب و روز ان کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہی لوگ داعی، نقیب اور آپ کے پیغامبر بن کر بنی اسرائیل کی ایک ایک بستی میں پہنچے۔ تاریخ اس سے متعلق کچھ زیادہ خبر نہیں دیتی کہ ان لوگوں کی کاوشوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو نفوذ کا کہاں تک موقع ملا، لیکن آپ کے رفع الی السمآء کے بعد یہی لوگ ہیں جن کی محنت کے ثمرات پھیلتے پھیلتے ملکوں کو اپنے دامن میں لینے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کہنا یہ مقصود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب بنی اسرائیل کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے یہ محسوس کرلیا کہ وہ مجھے مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ نے اپنی ساری توجہ کا رخ غریبوں کی طرف عموماً اور حواریوں کی طرف خصوصاً پھیر دیا۔ وہ مخالفتوں سے بالکل دلبرداشتہ نہیں ہوئے، حالات کے بگاڑ نے انھیں دل شکستہ نہیں کیا بلکہ انھوں نے حواریوں اور عام لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِاس جملے میں بعض باتیں خود بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ حالات تمہارے سامنے ہیں، فرض ہم سب کو پکار رہا ہے، یہ وقت نہیں کہ میں اس کی اہمیت اور افادیت پر بحث کروں، ایک سوالیہ نشان تمہارے سامنے ہے کہ بتائو اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے کون میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے ؟ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے بغیر کسی تأمل کے اس راہ پر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نتائج کچھ بھی ہوں، مجھے بہرحال ان طوفانوں سے ٹکرانا ہے۔ تم یہ بتائو کہ تم میرا ساتھ دینے کے لیے کہاں تک تیار ہو ؟ ” الٰی “ کا لفظ لا کر اظہارِ حقیقت کا حق بھی ادا کردیا کہ میں جس راستے کی دعوت دے رہا ہوں، وہ پھولوں کی سیج نہیں، اس میں قدم قدم پر بلائوں کا ہجوم ہے۔ وہ ایک طویل مسافت ہے جس میں کانٹوں پر چلنا ہوگا۔ اس راستے میں کہکشائیں نہیں ہوتیں بپھرے ہوئے طوفان ہوتے ہیں، جس میں چاروں طرف نہنگوں کے حملے بھی ہیں، جو شخص اپنی ذات کے تحفظ کا اسیر ہے اس کے لیے اس راستے میں کوئی جگہ نہیں ؎ یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری لیکن یہ کس قدر خوشگوار حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ جن کے ایمان لانے کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں، لیکن اللہ جب کسی دل کو نور ایمان سے بھرنا چاہتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قبولیت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ چناچہ اس راستے کی وہ مشکلات جسے برداشت کرنے کے لیے ایک طویل ریاضت چاہیے، اللہ کو جب منظور ہوتا ہے، وہ ایک جست میں تمام ہوجاتی ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ؎ عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام اس زمین و آسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں وہ بےساختہ پکار اٹھے نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ (ہم ہیں اللہ کے مددگار) اور آپ گواہ رہئے کہ ہم صرف دعویٰ کرنے والے لوگ نہیں بلکہ اس عظیم صداقت کو قبول کرنے کے بعد اس پر چلنے کے جو اور جیسے تقاضے ہیں، آپ ہمیں اس پر بھی ثابت قدم پائیں گے۔ غور فرمایئے ! حواری جس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ ” مسلم ہونا “ ہے اور پھر اسلام کے راستے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان پر اپنے قول و عمل سے اور ضرورت پڑی تو قربانیوں سے شہادت کا حق ادا کرنا ہے۔ لیکن بعد میں حواریوں کے نام لیوائوں اور ماننے والوں نے اپنی ایمانی زندگی کو جس طرح نصرانیت کا نام دیا یہاں اس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ وہ اپنی زندگی شہادتِ حق میں کھپا دینا چاہتے ہیں اور کتمانِ حق سے انھیں حد درجہ نفور ہے۔ لیکن بعد کے آنے والوں نے شہادتِ حق تو دور کی بات ہے کتمانِ حق کی ہی نہیں، انکارِ حق کی مثالیں قائم کیں۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے سوال اور حواریوں کے جواب کو دیکھتے ہوئے دو باتیں فوری طور پر ذہن میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اللہ کا کوئی رسول چاہے وہ اپنی ذات میں کتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو اور بیشک اس کی پشت پر عناصرِ قدرت ہی کارفرما کیوں نہ ہوں اور بیشک اس کی ہمنوائی میں عناصرِفطرت اس کے ہمرکاب ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کا قانون یہ ہے کہ جس طرح زمین سے غذا پیدا کرنا کئی ہاتھوں کے تعاون سے ممکن ہوتا ہے، جس طرح دنیا کا ہر کام اسباب کی ترتیب سے وجود میں آتا ہے۔ سورج کا کام زمین سے پانی کھینچ کر ابر کی چادریں بچھانا ہے، لیکن ابر کا برسنا سورج سے ماورا ایک کام ہے۔ ابر برستا ہے لیکن زمین میں ایک خاص مقدار تک پانی کا سرایت کرنا اور باقی ندی نالوں میں واپس چلے جانا، یہ ابر کے بس کی بات نہیں۔ کاشتکار زمین میں ہل چلاتا ہے، سہاگہ دیتا ہے، تخم ریزی کرتا ہے، نگہبانی کے فرائض انجام دیتا ہے، لیکن زمین کے سینے سے غلے کا اگانا، پھر اس کو رفتہ رفتہ بڑھانا، کاشتکار کی قدرت سے باہر کی چیز ہے۔ پھر خوشہ گندم میں دانوں کا پکانا اور پھلوں میں گداز پیدا کرنا یہ زمین کا نہیں سورج اور چاند کا کام ہے۔ مختصر یہ کہ یہاں ہر چھوٹا بڑا کام اپنے اتمام کو پہنچنے کے لیے اسباب کا محتاج ہے حالانکہ جس پروردگار نے یہ اسباب پیدا فرمائے ہیں، وہ براہ راست بھی ہر کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے پیغام کا لوگوں تک پہنچنا، دلوں میں سرایت کرنا، قبولیت کی صورت اختیار کرنا، عمل کے قالب میں ڈھلنا، ایک تحریک بن جانا، پھر انقلاب کی صورت بن کر لا دینیت کے خس و خاشاک کو بہا کے لے جانا اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نام اور اس کے پیغام کا ڈنکا بجنا صرف اللہ کے نبی کا کام نہیں۔ اللہ کا نبی یقینا اس کام کا داعی، اس کی تشکیل دینے والا، اس راستے میں استقامت کی تصویر، حق کا علمبردار، مینارہ نور، اپنی ذات میں حجت کامل اور پیغام اور معجزات کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود تنہا اس انقلاب کو برپا نہیں کرتا جسے اعلائے کلمتہ الحق کہتے ہیں، جو اللہ کے نبیوں کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ جس طرح اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے، اللہ سے مدد مانگتا ہے، اسی طرح وہ لوگوں سے بھی مدد چاہتا ہے اور پروردگار کے حضور یہ درخواست کرتا ہے یا اللہ ! اسلامی دعوت کی توانائی کے لیے عمر یا ابوجہل میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دیدے۔ وہ بار بار لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی اللہ سے التجائیں کرتا ہے۔ ایک ایک دروازے پر دستک دیتا ہے، ، ایک ایک کا دامن کھینچتا ہے کہ لوگو ! اس کام میں میرا ساتھ دو ، میں تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہوں۔ یہ وہ سنت رسالت ہے جو تمام انبیاء و رسل میں برابر کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ جیسے جیسے حالات ناموافق اور سرکش ہوتے جاتے ہیں، ویسے ویسے پیغمبر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے ساتھ ساتھ بندوں کو بھی زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضرتِ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی انبیاء و رسل کی اسی سنت کے مطابق حواریوں کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مدد اور نصرت کے لیے پکارا۔ ممکن ہے اس سوال کی تفصیلات کچھ اور بھی ہوں جس کا قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا، لیکن حواریوں کے جواب سے وہ مترشح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان سے صرف یہی نہیں کہا گیا کہ مخالفین مخالفت میں سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں، ان کے دل اللہ کے دین کے لیے پتھر ہوگئے ہیں، میں یہ نعمت عظمیٰ تمہارے پاس لے کے آیا ہوں، آگے بڑھو اور اپنی قسمت بنا لو۔ معلوم ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہوگا کہ جس طرح یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں بلا کم وکاست بغیر خطرات کی پرواہ کیے اللہ کا دین لوگوں تک پہنچائوں اور پھر اس راستے میں مصائب پر استقامت دکھاتے ہوئے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دوں کہ اگر یہ دین سچا نہ ہوتا تو اللہ کا یہ بندہ اس پر دکھ اور تکلیفیں کیوں اٹھاتا ؟ اور جن لوگوں کو میں دیکھوں کہ وہ علم اور عقل کی بات سمجھنے سے عاری ہیں تو میں اللہ کی توفیق سے ان کے سامنے معجزات بھی ظاہر کروں۔ اسی طرح تمہارا بھی یہ کام ہے کہ تم میری ہمنوائی میں اس دعوت کے دائرے کو پھیلا دو ، گلی کوچوں میں اس دعوت کو لے کر چیختے پھرو۔ دنیا کی مخالفتوں پر صبر کرتے ہوئے اللہ کے دین کی سچائی کی گواہی دے دو ۔ جب ایک بات بار بار بلند آہنگی سے اور خطرات سے بےنیازہو کر کہی جاتی ہے تو سننے والا یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس شخص کا ایک ایک قول اور ایک ایک عمل اور پھر اس پر بےپناہ صبر اس کی دعوت کی صداقت کی ایک ایسی دلیل اور گواہی ہے جس سے بڑی گواہی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اللہ کی بیشمار قدرتوں کا ظہور اس کے وجود کی گواہی ہے۔ اہل علم کا زندگی بھر علم کے زور سے اس کی ذات وصفات اور اس کے دین کی سربلندی کو ثابت کرنا یہ ان کی گواہی ہے۔ اسی طرح عام آدمی کا اللہ کے دین پر ایمان لا کر برے سے برے حالات میں اس کی موافقت کرنا، اسی کے نعرے لگانا، اسی کی تائید میں اپنا وزن ڈالنا، یہ بھی اللہ کے دین کی سچائی کی گواہی ہے اور اگر کبھی اس کی خاطر جان تک قربان کرنا پڑے تو جان بھی قربان کردینا، یہ وہ شہادتِ عظمیٰ اور سب سے بڑی گواہی ہے جسے ہمیشہ اہل حق نے دنیا میں انجام دیا اور کتنے پیغمبر بھی اس راستے میں یہ شہادت دیتے ہوئے کام آئے۔ معلوم ہوتا ہے جب بھی کافر اسلام دشمنی میں یکجا اور متحد ہوجائیں اور کفر کی قوتیں اپنے اثرات کو مسلمانوں کے گھروں تک پہنچا دیں اور مسلمانوں کی قوت سمٹتی ہوئی دکھائی دینے لگے اور کفر کا غلبہ بڑھتا جائے تو پھر جس طرح ہر مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اس راستے میں جھونک دے اسی طرح اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی مدد کے لیے پکارے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ کون سا موقع ہوگا جب اقبال نے سرعبدالقادر کو پکارا تھا، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ جس طرح ایک ایک مسلمان کو پکارتا تھا اسی طرح اس نے سر عبدالقادر کو پکارتے ہوئے کہا تھا ؎ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خ اور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط اسی ہنگامہ سے محفل تہہ وبالا کر دیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ سننے والے سنتے ہیں یا نہیں، پکارنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ پکار پکار کر سننے والوں پر اتمامِ حجت کر دے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ سننے والے بھی ضرور سنیں گے اور اگر انسان نہیں سنیں گے تو آسمان کے فرشتے اتریں گے۔ اگر دل سخت ہوجائیں گے تو چٹانیں پھٹیں گی، اللہ کا دین سرنگوں ہونے کے لیے نہیں آیا، اسے کفر کبھی ختم نہیں کرسکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) نے دریا کے مچھیروں یا گھاٹ کے دھوبیوں کو پکارا اور اپنی ہمنوائی میں لے کر ان کے اندر وہ روح پھونک دی کہ خود تو اللہ کی مشیت کے مطابق آسمانوں پر اٹھا لیے گئے، لیکن آنے والے دنوں میں ان چند حواریوں کی مساعی نے دور دور تک اس دعوت کو پھیلایا اور آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری تک نصاریٰ میں جو ایک قابل قدر طبقہ باقی رہا جو بالآخر مسلمان بھی ہوا، وہ انھیں حواریوں کی محنت کا ثمر تھا۔ انھوں نے اپنی محنت سے اللہ کے دین کی شہادت دی تو اللہ نے ان کی زندگی اور ذکر کو ایسا دوام بخشا کہ ہمیشہ رہنے والی کتاب میں ان کا تذکرہ شامل فرما دیا۔ قرآن کریم میں اس عبرت آموز داستان اور فکر انگیز حقیقت کو بیان کرنے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ قیامت تک اس کو مشعل راہ بنائے۔ جب بھی کبھی اس پر ایسا وقت آئے کہ کفر کی آندھیاں شمع ہدایت کو بجھانے کے لیے مجتمع ہوجائیں اور مسلمان کا لہو پانی سے ارزاں ہوجائے اور مسلمان بچیوں کی عزتیں اور عفتیں پتنگوں کی طرح کٹنے اور لٹنے لگیں اور امت مسلمہ کا اجتماعی وقار دھجیوں کی صورت ملک ملک اڑتا پھرے اور مسلمانوں کے سربراہ جن کے سپرد مسلمانوں کی پاسبانی، تاریخِ اسلام کی آبیاری اور اللہ کے آخری دین کی سربلندی ہے، وہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو کر دنیا اور دولت دنیا کو اپنا ملجا و ماویٰ بنالیں اور وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے خوشامد اور غداری کی آخری حد تک جانے کو تیار ہوجائیں۔ طبقہ امراء دنیا اور دولت دنیا کو مقصد زندگی قرار دے کر ایک دوسرے سے تنافس میں لگ جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں ایمان بیچنا پڑے، مسلمانوں کی روایات کو پامال کرنا پڑے، تو وہ یہ سب کچھ کر گزرنے کو بھی تیار ہوجائے اور امت کے علماء اور مشائخ اس بات پر قانع ہوجائیں کہ ہماری فتوحات کا سلسلہ چلتا رہے اور حکمران ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے، اجتہاد کے سوتے خشک ہوجائیں، امت سب سے بڑی افرادی قوت ہوتے ہوئے بھی دھرتی کا بوجھ بن جائے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح محسوس ہونے لگے کہ کفر ہمارے وسائلِ حیات پر قابض ہونے کی فکر میں ہے اور اب شائد ہماری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں تو اس وقت امت کی بقا کے لیے ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس کے صاحب علم، صاحب دل، اہل درد اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ اٹھیں، اپنی قلت تعداد کی پرواہ کیے بغیر گلی گلی کوچہ کوچہ حمیت اسلامی کی دہائی دیں، مسلمانوں کو ان کی روایات یاد دلائیں اور ان میں آخرت کی فکر پیدا کریں اور ایک ایک کا دامن کھینچ کر انھیں حالات کا آئینہ دکھانے کی کوشش کریں اور انھیں یقین دلا دیں ؎ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا مسلمانوں کو اس پیش پا افتادہ حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ لا دینیت کا مقابلہ دین سے ہی کیا جاسکتا ہے قوت کا مقابلہ قوت اور اللہ پر بےپناہ بھروسہ ہی کرسکتا ہے۔ کافر اگر صلیبی دور کے بغض سے مسلح ہو کر میدان میں آیا ہے تو ہمیں بھی صلاح الدین ایوبی کی روح کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہماری بقا صلیبیوں کی خوشامد میں نہیں بلکہ اللہ کے بھروسے پر اٹھ کھڑے ہونے میں ہے۔ آج ضرورت ہے کہ وہ آندھی جو افغانستان کو روند چکی اور عراق کو جلائے دے رہی ہے اس کے آنے سے پہلے اپنے ایک ایک تنکے کو سمیٹ لیں۔ اپنی منتشر طاقتوں کی شیرازہ بندی کرلیں۔ طوفانوں کے اٹھنے سے پہلے اپنے بند مضبوط کرلیں۔ پورے عالم اسلام کو دین سے بےوفائی کی سزا مل رہی ہے۔ ہم اس سے وفاداری کا اظہار کر کے اور اپنی سیرت و کردار کی خرابیوں کو دور کر کے اس کی تائید و نصرت کو اپنی طرف متوجہ کرلیں۔ مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب کے قریب کہی جاتی ہے اور دنیا کے بیشتر وسائل پر بھی ان کا قبضہ ہے۔ کمی اگر ہے تو سیرت و کردار میں پختگی کی، مقصد سے لگن کی، دین سے وابستگی کی اللہ ہی سے امید کی لو لگانے کی اور رسول اللہ ﷺ کی محبت، اطاعت اور اتباع کی۔ جدید اور قدیم علوم میں مہارت پیدا کرنے کی اور یہ فیصلہ کرنے کی ہے کہ ہمیں بہرصورت زندہ رہنا ہے، ہمیں ایک آبرومندانہ زندگی گزارنی ہے۔ ہم نے اپنے گھروں، اپنے گلی کوچوں اور اپنے اجتماعی اداروں کی منڈیروں پر حمیت کے چراغ جلانے ہیں۔ ہمیں دنیا کو محبت کا پیغام دینا ہے، لیکن بےغیرتی کے طشت میں رکھ کر نہیں۔ ہمیں دنیا کو مکارمِ اخلاق سے آگاہ کرنا ہے، لیکن فقیری اور ضعیفی کے ساتھ نہیں۔ ہمیں وسعت ظرف کا ثبوت دینا ہے، لیکن شرم و حیا سے خالی ہو کر نہیں۔ ہمیں صنف نازک کو زندگی کے سفر میں ساتھ لے کر چلنا ہے، لیکن کر سٹن کیلر بنا کر نہیں بلکہ فاطمہ اور عائشہ بنا کر۔ ہمیں کسی سے لڑنے اور بگاڑنے کی بجائے اپنا گھر سنوارنا ہے، لیکن دوسروں کو اپنے گھروں میں داخلے کی اجازت دے کر نہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ باور کرانا ہے ؎ تم ہم سے ملو گے تو ہمیں پائو گے مخلص ہرچند کہ اخلاص کا دعویٰ نہیں کرتے ہم لوگ تو درویش ہیں کیا ہم سے الجھنا جو ہم کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کرتے لازم ہے زمانے کو کرے قدر ہماری ہم لوگ کبھی لوٹ کے آیا نہیں کرتے
Top