Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 52
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَحَسَّ : معلوم کیا عِيْسٰى : عیسیٰ مِنْھُمُ : ان سے الْكُفْرَ : کفر قَالَ : اس نے کہا مَنْ : کون اَنْصَارِيْٓ : میری مدد کرنے والا اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ قَالَ : کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریّ (جمع) نَحْنُ : ہم اَنْصَارُ : مدد کرنے والے اللّٰهِ : اللہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاشْهَدْ : تو گواہ رہ بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : فرماں بردار
پس جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیا تو اس نے دعوت دی کہ کون میرا مددگار بنتا ہے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں۔
’ حواری ‘ کا مفہوم : ’ حواری ‘ کا لفظ عربی میں عبرانی سے آیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے لغوی مفہوم میں اہل لغت کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے معنی خیر خواہ، حامی، ناصر اور مددگار کے ہیں۔ جس طرح لفظ انصار مدینہ کے ان جانثاروں کے لیے خاص ہوا جنہوں نے ابتدائے دعوت ہی سے آنحضرت ﷺ کا ساتھ دیا اسی طرح ’ حواریین ‘ کا لفظ حضرت عیسیٰ ؑ کے ان خاص شاگردوں کے لیے استعمال ہوا جو آپ پر ایمان لائے، ہر قسم کے نرم و گرم حالات میں آپ کے ساتھ رہے، آپ نے پوری شفقت اور دل سوزی سے شب وروز جن کی تعلیم وتربیت کی اور جو بالآخر آپ کے داعی، نقیب اور آپ کے پیغام بر بن کر بنی اسرائیل کی ایک ایک بستی میں پہنچے۔ ان شاگردوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ انجیل میں موجود ہے۔ ’ انصار ‘ ناصر کی بھی جمع ہے اور نصیر کی بھی۔ معنی واضح ہیں۔ ہمارے نزدیک، جیسا کہ اوپر ہم نے اشارہ کیا، معنی کے اعتبار سے انصار اور حوارئین کے لفظ میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ چناچہ اسی اشتراک معنوی کے پہلو سے حوارئین کو قرآن نے، جیسا کہ ہم سورة صف میں بتائیں گے، انصارِ مدینہ کے سامنے بطور مثال پیش کیا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کے علماء اور سرداروں کے رویے سے یہ محسوس کرلیا کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں تو انہوں نے اپنی ساری توجہ اپنے ان غریب ساتھیوں کی طرف پھیر دی جو اگرچہ منصب و جاہ نہیں رکھتے تھے لیکن دولت ایمان سے متمتع تھے۔ انبیا (علیہم السلام) کی یہ سنت رہی ہے کہ اول اول تو انہوں نے اپنی اپنی قوموں کے با اثر لوگوں کو جھنجھوڑنے اور جگانے کی کوشش کی ہے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہ خواب غفلت کے ماتے لوگ کروٹ بدلنے والے نہیں ہیں تو انہوں نے ان سرمستوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنی ساری توجہ اپنے غریب باایمان ساتھیوں پر مرکوز کردی ہے۔ قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ کو کفار سے اعراض کرنے اور اہل ایمان کو تذکیر کرنے کی جو بار بار ہدایت ہوئی ہے وہ اسی مرحلے کی بات ہے۔ اور یہی مرحلہ ہے جس میں سیدنا مسیح ؑ نے دریا کے کنارے کے ماہی گیروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے مچھلیوں کے پکڑنے والو آؤ، میں تمہیں آدمیوں کا پکڑنے والا بناؤں۔ انبیاء کے کردار کا ایک پہلو : اس آیت سے حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے کردار پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ حالات کے بگاڑ اور قوم کی ہٹ دھرمی سے مایوس اور دل شکستہ نہیں ہوتے۔ بلکہ خدا کی راہ میں وہ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں اگر زور و اثر رکھنے والے لوگ ان کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ اپنے غریب، وفادار اور کمزور و بےاثر ساتھیوں ہی کو لے کر اپنا سفر شروع کردیتے ہیں۔ حالات کی تاریکی ان کے اندر روشنی اور قوم کی بےمہری ان کے اندر مزید قوت اور عزم پیدا کرتی ہے (ع) حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی۔ سورة نوح کی تفسیر میں انبیا کے کردار کے اس پہلو پر انشاء اللہ ہم تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ سے ایک طرف تو اس جوش دعوت کا اظہار ہو رہا ہے، جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے دوسری طرف ان کے اس اقدام اور اس عزم و جزم کا اظہار ہو رہا ہے جو اللہ کے سوا ہر معیت ورفاقت سے بالکل بےنیاز ہوتا ہے، غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ دعوت کی اس للکار میں یہ مضمون بھی مضمر ہے کہ میں تو اپنے رب کی راہ پر، یہ دیکھو، چل کھڑا ہوا ہوں، اب جس کے اندر حوصلہ ہو وہ اس وادی پر خار میں میرا ساتھ دے۔ نبی کا یہ فیصلہ کن عزم مردوں کے اندر بھی زندگی کی لہر دوڑا دینے کا اثر رکھتا ہے۔ جن روحوں کے اندر کچھ صلاحیت ہوتی ہے وہ نہ صرف یہ کہ بیدار ہوجاتی ہیں بلکہ تڑپ اٹھتی ہیں اور جب تڑپ اٹھتی ہیں تو برسوں کی منزل لمحوں میں طے کرلیتی ہیں۔ زبان کا ایک نکتہ : جو لوگ عربی کے ادا شناس ہیں ان کے لیے یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے تو فرمایا کہ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ، لیکن حواریین نے جو جواب دیا وہ یہ نہیں ہے کہ نَحْنُ اَنْصَارُکَ اِلی اللّٰهِ ، بلکہ بےدھڑک جواب دیا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ، سیدنا مسیح کے ارشاد میں ’ اِلیٰ ‘ اس مسافت کو واضح کر رہا ہے جو راہ اور منزل کے درمیان واقع ہے اور ایک داعی کی حیثیت سے ان کے شایان شان یہی تھا کہ اس راہ کی مشکلات اور درمیان کی مسافت سے آگاہ کردیں لیکن حواریین نے اپنے جواب میں جوشِ فدویت کی ایک ہی جست میں گویا ساری مسافت طے کرلی ہے اور دعوت حق کے اس نازک مرحلے میں ان کے جذبہ ایمان و اسلام کے شایان شان بات یہی تھی۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ حضرت مسیح کے سوال میں تو بڑا اختصار ہے لیکن حواریین کے جواب میں بڑی تفصیل ہے۔ انہوں نے اپنے ایمان کا بھی اقرار کیا، اپنے مسلم ہونے پر بھی حضرت مسیح کو گواہ ٹھہرایا، اور اپنے ایمان واتباع رسول کے اقرار کے ساتھ خدا سے دعا بھی کی کہ ان کو حق کی شہادت دینے والوں میں لکھا جائے۔ ”نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ“ کے مضمرات : اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حواریین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اللہ کے انصار میں سے ہونے کے معنی کیا ہیں اور یہ اجمال کن تضمنات و مضمرات پر مشتمل ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے تقاضوں میں سے یہ ہے کہ خدا پر صدق دل سے ایمان لایا جائے، اس کے جملہ احکام کی بےچون و چرا پیروی کی جائے، جو کچھ اس نے اتارا ہے اس کو مانا جائے، اس کے بھیجے ہوئے رسول کی پیروی کی جائے اور قول، عمل، زندگی اور موت سے اس حق کی شہادت دی جائے جس کا خدا نے امین بنایا ہے۔ یہی وہ شہادت ہے جو اگر جان دے کردی جائے تو اصل شہادت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ حواریین نے سیدنا مسیح کو جس چیز پر خاص طور پر گواہ ٹھہرایا ہے، وہ اپنا مسلم ہونا ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ حواریین کے ذہن میں صرف اسلام اور مسلم کا تصور تھا، نصاری اور نصرانیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ بات اس سورة کے عمود سے تعلق رکھتی ہے۔ ہم سورة کے تمہیدی مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ اس سورة کا عمود اسلام ہے۔
Top