Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 52
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَحَسَّ : معلوم کیا عِيْسٰى : عیسیٰ مِنْھُمُ : ان سے الْكُفْرَ : کفر قَالَ : اس نے کہا مَنْ : کون اَنْصَارِيْٓ : میری مدد کرنے والا اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ قَالَ : کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریّ (جمع) نَحْنُ : ہم اَنْصَارُ : مدد کرنے والے اللّٰهِ : اللہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاشْهَدْ : تو گواہ رہ بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : فرماں بردار
پھر عیسیٰ نے بنی اسرائیل میں کفر دیکھا تو وہ پکار اٹھا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو ؟ اس پر اس کے چند حواریوں نے اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور تم گواہ رہو کہ ہم اس کی فرمانبرداری میں مکمل طور پر داخل ہو گئے
مسیح (علیہ السلام) کی گزشتہ تمثیل کی وضاحت : 121: غور کرو کہ اگر ایک شخص مردوں کو زندہ کردے ، کوڑھیوں کو چنگا کر دے اور نابینوں کو بینا کردکھائے تو اس کے اس طرح کے کاموں کو انکار کیسے ہو سکتا ہے ؟ نبوت کوئی مانے یا نہ مانے۔ ان مشاہدہ میں آنے والی باتوں کا وہ انکار نہیں کرسکے گا ؟ پھر یہ کام جو سارے کے سارے اللہ ہی کے متعلق ہیں کسی انسان کے اختیار میں نہیں جب انسان سے ان کا ظہور ہونے لگے تو اس کو لوگ کیا مانیں گے ؟ قرآن کریم نے صاف صاف بتا دیا کہ مسیح (علیہ السلام) نے کفر کی موت مرے ہوؤں کو زندہ اور منافقت کے کوڑھیوں کو چنگا کرنے کے لیے جب تعلیم دینا شروع کی تو جن لوگوں نے اس پر دھیان دیا اللہ نے ان پر ایمانی زندگی کا راستہ کھول دیا اگرچہ وہ چندے معدودے ہی تھے لیکن اکثریت نے مسیح (علیہ السلام) کی اس تعلیم سے انکار کردیا اور یہ ان کا کفر تھا۔ فرمایا : فَلَمَّا اَحَسَّ مِنْھُمْ الْكُفْرَ ” جب مسیح (علیہ السلام) نے ان سے کفر محسوس کیا ؟ واضح کردیا کہ ان کا کفر بھی ایسا کفر تھا جس کو مسیح (علیہ السلام) نے محسوس کیا یعنی ان کا کفر واضح اور ظاہر تھا کیونکہ وہ مسیح کی ہر طرح کی مخالفت کا کفر تھا اور مسیح (علیہ السلام) بھی ان کی اس مخالفت کو اچھی طرح بھانپ گئے اور ان ایمانی زندگی اختیار کرنے والوں کو پکار پکار کر کہا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری معاونت کرے یعنی اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے میرا کھلا کھلا ساتھ دے۔ ان الفاظ نے ایک طرف یہ وضاحت کردی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک انسان تھے اللہ ، اللہ کا بیٹا یا اللہ کا جز نہیں تھے۔ اس لیے اللہ کے دین کی نصرت کے لیے لوگوں کو پکارا اور دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ نبی کی دعوت کا منشا ہی اصل یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے اور ایک اللہ کی الوہیت کے پیغام کو عام کیا جائے اس طرح کہ دوسروں کی الوہیت کی نفی بھی ہو۔ دوسری طرف اس بات کی بھی وضاحت ہو گئی کہ اہل دین کی نصرت کے لیے معاونت طلب کرنا تو کل کے خلاف نہیں ہے۔ ہاں ! معاونت کرنے والا کوئی نہ ہو تو دین سے منحرف ہونا توکل کے بھی خلاف ہے اور ایمان کے بھی۔ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے انحراف نہ ہو کیونکہ وہ جان سے زیادہ عزیز چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ 1ؕ (آل عمران 3 : 52) کی تشریح ابن جریر نے اس طرح کی ہے کہ : من اعوانی علی المکذبین بحجة اللّٰه ” یعنی کون ہے جو تکذیب کرنے والوں کے خلاف اللہ کی حجت کے ساتھ میرا مددگار ہوگا۔ “ اور مزید فرمایا کہ اِلَى اللّٰهِ 1ؕ اس جگہ بمعنی ” مع اللّٰه “ اور پھر مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں نے جو جواب نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ 1ۚ دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ” ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں “ اور اس سلسلہ میں اللہ کے رسول کی مدد کرنا اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے کیونکہ یہ بات اصول دین میں ہے کہ اللہ کی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ الحواریین حواری کی جمع ہے جو دراصل حور سے مشتق ہے اور حور کے معنی ایک چیز سے لوٹ آنا یا ایک چیز کی طرف لوٹ جانا کے ہیں اس سے ” یحور “ ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے : ” اَنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ “ (الانشقاق 84 : 41 ) اس نے سمجھ رکھا تھا کہ وہ پلٹ کر نہیں جائے گا۔ اور پھر اس سے ” تحاور “ ہے اور تحاور ایک دوسرے کی طرف لوٹانے کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے : وَاللّٰهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا “ (المجادلہ 58 : 1 ) اور اللہ تم دونوں کی بات کو جو ایک دوسرے سے کر رہے تھے سن رہا تھا۔ حور سفیدی کو بھی کہتے ہیں اس لیے ” حوراء “ اس عورت کو کہتے ہیں جس کا رنگ بھی سفید ہو اور اس کی آنکھوں کی سفیدی بہت سفید اور سیاہی نہایت سیاہ ہو۔ اہل لغت کے نزدیک لفظ حواری اس سے مشتق ہے رہی یہ بات کہ یہ لفظ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے برگزیدہ احباب پر کیوں بولا گیا تو اس کی وجہ یہی معروف و مشہور ہے کہ حواری قضاء کو کہتے ہیں یعنی جو کپڑوں کو دھو کر سفید کرتا ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے یہ احباب چونکہ دھوبی کا کام کرتے تھے یہی لوگ سب سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور اس لیے ان کے بعد ایمان لانے والوں کو بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ : والزبیر ابن عمتی وحواری من امتی یعنی زبیرمیری پھوپھی کا بیٹا اور میری امت سے مرا حواری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ خلوص نیت اور سیرة کی پاکیزگی کی وجہ سے ان کی حواری کہا گیا یعنی تن من دھن کو قربانی کردینے والے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارہ حواریوں کا ذکران کے ناموں کے ساتھ انجیل میں کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو لوقا 14:6 اور مرقس 3:10 ۔ ان میں سے بارہویں حواری کا نام یہودا اسکریوطی تھا اور اسی نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑوا بھی دیا تھا۔ ان بارہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ” اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہت بہت نزدیک آگئی ہے۔ “ (متی 7:10) ان کے ذمہ جو کام لگایا گیا اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ ” بیماروں کو اچھا کرنا ، مردوں کو جلانا ، کوڑھیوں کو پاک و صاف کرنا ، بدروحوں کو نکالنا۔ تم نے مفت پایا مفت دینا۔ “ (متی 9 ۔ 8:10) قرآن کریم کی اس معجزانہ تعلیم میں حواریوں کی خوبی کا ذکر تو کیا گیا لیکن ان کی کمزوریوں کا نام تک نہ لیا گیا حالانکہ انجیل کے مطالعہ سے ان حواریوں کی کمزوریوں کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ دیکھنے کا شوق ہو تو متی اور لوقا کی انجیل کا مطالعہ کریں۔ خصوصاً متی کا باب 16 اور لوقا کا باب 62 ۔ 57 ۔ 22 ۔ پھر غور کرو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کام اپنے حواریوں کے ذمہ لگائے وہ وہی تھے خود عیسیٰ (علیہ السلام) سر انجام دیتے رہے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی جو نبوت کے ساتھ خاص تھی جیسا کہ عام طور پر سمجھ لیا گیا ہے۔ اگر ان کو روحانی بیمار ، کفر کی موت مرے ہوئے مراد نہ لیا جائے تو معلوم ہوگیا کہ بیماروں کا اچھا کرنا ، مردوں کا زندہ کرنا ، کوڑھیوں کو چنگا کرنا اگر عیسیٰ (علیہ السلام) باذن اللہ کرتے تھے تو اس طرح وہ اپنے اذن سے اپن حواریوں سے بھی کرایا کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے ذمہ بھی انہوں نے بالکل وہی کام لگائے ہیں جس سے یہ بات مزید صاف ہوجاتی ہے کہ دراصل یہ وہی امثال و استعارات ہیں جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اختیار کیے اس لیے کہ اس سے کلام کا وزن اور اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ چناچہ خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ حواریوں کو کہا اس کی آخری تلقین اس طرح تھی کہ ” اگر تم کو کوئی قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دینا۔ “ (متی 15:10) ” دیکھو میں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بےآزاد بنو مگر آدمیوں سے خبردار ہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالے کریں گے۔ “ (متی 18:10)
Top