Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 52
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَحَسَّ : معلوم کیا عِيْسٰى : عیسیٰ مِنْھُمُ : ان سے الْكُفْرَ : کفر قَالَ : اس نے کہا مَنْ : کون اَنْصَارِيْٓ : میری مدد کرنے والا اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ قَالَ : کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریّ (جمع) نَحْنُ : ہم اَنْصَارُ : مدد کرنے والے اللّٰهِ : اللہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاشْهَدْ : تو گواہ رہ بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : فرماں بردار
پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے انکار ہی پایا،130 ۔ تو بولے میرا کون مددگار ہوگا اللہ کے لئے حواری بولے ہم ہیں اللہ کے مددگار،131 ۔ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہیے گا کا ہم فرمانبردار ہیں،132 ۔
130 ۔ (اپنی ہر سعی اور تبلیغ کے باوجود) (آیت) ” احش “ یعنی پایا یا محسوس کیا جو اس ظاہری سے۔ معناہ علم ووجد قالہ الزجاج وقال ابوعبیدہ معنی احش عرف (قرطبی) لایقال ذلک الافی ماکان من جھۃ الحاسۃ (راغب) لحقق یدرک بالحواس (بیضاوی) (آیت) ” منہم “۔ یعنی اپنے مخاطبین کی طرف سے جو بنی اسرائیل یا یہود تھے۔ ای من بنی اسرائیل (قرطبی) (آیت) ” الکفر “۔ یعنی انکار نبوت عیسوی سے اور انکار بھی ظلم وتعدی کے ساتھ۔ یہ انکار و طغیان علانیہ وبرملا تھا۔ کوئی دقیق ومخفی شے نہ تھی جو مستنبط کی جاتی بلکہ حواس ظاہری ہی سے محسوس ہونے والی کھلی ہوئی چیز تھی اور یہی نکتہ ہے کہ یہاں فعل احسن استعمال کیا گیا جس کے معنی بالکل ظاہر ظہور پانے کے ہیں۔ فتنبیہ انہ قد ظہر منہم الکفر ظہورا بان للحس فضلا عن الفھم (راغب) 131 ۔ آپ نے اپنی قوم کو نصرت دین کے لئے جو پکارا اس سے محققین نے یہ استنباط کیا ہے کہ اہل دین سے دین کے بارے میں مدد طلب کرنا تو کل کے ذرا بھی منافی نہیں۔ ان سے یہ مدد طلب کرنا اسی حیثیت سے ہوتا ہے یہ نصرت الہی کے مظاہر ہوتے ہیں (آیت) ” الی اللہ “۔ یعنی اللہ کی راہ میں۔ اللہ کے دین کے لیے۔ قال الحسن المعنی من انصاری فی السبیل الی اللہ (قرطبی) قال ابو علی القاری معنی الی اللہ اللہ (بحر) الی ھھنا بمعنی مع اوفی اواللام (بیضاوی) الحواریون حواری کے لفظی معنی کپڑا دھو کر اسے صاف اور اجلا کردینے والے کے ہیں۔ حورت الشیء ای بیضتہ ودورتہ (راغب) واصل الحور فی اللغۃ البیاض وحورت الثیاب بیض تھا (قرطبی) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ابتدائی مرید چونکہ عموما دریا کے کنارے کام کرنے والے ماہی گیر تھے اس لیے آپ کے بعد کے بھی رفیقوں، شاگردوں کا یہی لقب پڑگیا، مجازی معنی مخلص مددگار کے ہیں۔ چناچہ حدیث میں حضرت زبیر ؓ کے لئے یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔ الحواری ایضا الناصر (قرطبی) وقولہ ﷺ لکل نبی حواری وحواری الزبیر (راغب) حواری الرجال صفوتہ وخالصتہ (کشاف) بہرحال وجہ تسمیہ جو کچھ بھی ہو۔ مسیح (علیہ السلام) کے صحابیوں کے لئے لقب یہی چلا ہوا تھا۔ (آیت) ” نحن انصار اللہ “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تو اپنے مددگار طلب گئے تھے من انصاری گو خدا کے کام کے لئے، حواری جواب میں اپنے کو خدا کے مددگار انصار اللہ کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ نحن انصارک الی اللہ محققین نے اس سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ اہل اللہ کے ساتھ معاملہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرنا۔ 132 ۔ (آیت) ” مسلمون “۔ مسلم ہی کا لفطی ترجمہ فرمان بردار ہے۔ مسلم کا اطلاق ہر نبی کے پیرو پر ہوتا ہے۔ ؛ کہ حقیقۃ ہر نبی کی دعوت اللہ کی فرمان برداری ہی کی ہوتی ہے۔ (آیت) ” امنا باللہ “۔ حواریوں کا سارا زور ایمان باللہ پر ہے۔”’ ابن اللہ “ کے تو تخیل سے بھی وہ بیچارے آشنانہ تھے۔
Top