Mafhoom-ul-Quran - Al-Haaqqa : 80
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَحَسَّ : معلوم کیا عِيْسٰى : عیسیٰ مِنْھُمُ : ان سے الْكُفْرَ : کفر قَالَ : اس نے کہا مَنْ : کون اَنْصَارِيْٓ : میری مدد کرنے والا اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ قَالَ : کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریّ (جمع) نَحْنُ : ہم اَنْصَارُ : مدد کرنے والے اللّٰهِ : اللہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاشْهَدْ : تو گواہ رہ بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : فرماں بردار
جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوگا حواریوں نے جواب دیا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری تشریح : جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ قوم ماننے کو تیار نہیں، بلکہ انکار ہی کئے جاتے ہیں تو پھر انہوں نے قوم کو دین کی مدد کے لئے پکارا اس پر کچھ حواری بولے کہ ہم حاضر ہیں۔ حواری بمعنی انصار کے ہے اور کہیں ان کو رسول بھی کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کہ وہ تبلیغ دین کا کام کرتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ سمندر کے کنارے رہنے والے دھوبی تھے۔ اسی مناسبت سے آپ کے رفیقوں اور صحابیوں کا لقب ہی حواری پڑگیا۔ (مطالعہ قرآن) یہ اہل کتاب سچے مسلمانوں کی طرح توحید کے قائل تھے اور مسیح سے گفتگو کرتے ہوئے براہ راست اللہ سے باتیں کرنے لگے اور بولے کہ اے ہمارے رب ! ہم اس پر ایمان لے آئے جو کچھ آپ نے اتارا ہے اور ہم نے رسول کی پیروی کی اس لئے ہمیں ان لوگوں کے ساتھ لکھ دیجئے جو تصدیق کرتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کردیں اور ان کو حکومت کا باغی کہنے لگے اور یہ کہا کہ یہ تورات کو بدلنا چاہتا ہے۔ اس پر بادشاہ وقت نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا ادھر اللہ نے اپنی خفیہ تدبیر کی اور اللہ کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے۔ اس کی تفصیلات اگلی آیات میں بیان کی جارہی ہیں۔
Top