Ruh-ul-Quran - An-Najm : 31
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کے لیے ہے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ : اور جو کچھ زمین میں ہے لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : تاکہ بدلہ دے ان لوگوں کو اَسَآءُوْا : جنہوں نے برا کیا بِمَا عَمِلُوْا : ساتھ اس کے جو انہوں نے کام کیے وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : اور جزا دے ان لوگوں کو اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى : جنہوں نے اچھا کیا ساتھ بھلائی کے
اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو بدلہ دے جن لوگوں نے برے کام کیے اور ان لوگوں کو اچھی جزاء دے جن لوگوں نے اچھے کام کیے
وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ لا لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآئُ وْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰی۔ (النجم : 31) (اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو بدلہ دے جن لوگوں نے برے کام کیے اور ان لوگوں کو اچھی جزاء دے جن لوگوں نے اچھے کام کیے۔ ) ہدایت و ضلالت کا سررشتہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے ہدایت و ضلالت کا سررشتہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور اسی کے اختیار میں ہے۔ اس لیے اسے بجاطور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ان پر اپنی حکمت و مشیت کے مطابق احکام اور شریعت نافذ کرے۔ اور پھر ایک ایسا دن لائے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کون لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاری اور نہایت خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلتے رہے۔ اور کون لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی۔ پھر اسے ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ نیک عمل کرنے والوں کو جزاء دے۔ اور برائی کرنے والوں کو سزا دے۔ البتہ اس نے ان دونوں باتوں میں ایک نہایت نازک فرق رکھا ہے کہ وہ برائی کرنے والوں کے ساتھ عدل کا معاملہ کرتا ہے۔ کیونکہ وہ عادل ہے۔ عدل کا معاملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کے سامنے وہ بےکم وکاست ان کے اعمال پیش کردے گا۔ ان میں نہ کمی کرے گا نہ زیادتی کرے گا۔ اور انھوں نے جس درجے کی نافرمانی کی ہوگی نہایت ناپ تول کے اس کے مطابق ان کو سزا ملے گی۔ لیکن جہاں تک نیک لوگوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ اس کا معاملہ صرف عدل کا نہیں بلکہ فضل و انعام کا ہوگا۔ وہ چونکہ عادل ہے اس لیے کسی کے ساتھ بےانصاف نہیں کرے گا وہ صاحب فضل و انعام بھی ہے اس لیے اپنے نیک بندوں کے ساتھ جو دو فضل کا معاملہ کرے گا۔ ان کی چھوٹی موٹی کمزوزیوں سے درگزر فرمائے گا اور ان کے کارناموں پر زیادہ سے زیادہ اجروثواب عطا کرے گا۔
Top