Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 31
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کے لیے ہے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ : اور جو کچھ زمین میں ہے لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : تاکہ بدلہ دے ان لوگوں کو اَسَآءُوْا : جنہوں نے برا کیا بِمَا عَمِلُوْا : ساتھ اس کے جو انہوں نے کام کیے وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : اور جزا دے ان لوگوں کو اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى : جنہوں نے اچھا کیا ساتھ بھلائی کے
اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب کا سب) اللہ ہی کا ہے تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور جنہوں نے بھلائی کی ہے ان کو نیک اجر عطا کرے
اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی بادشاہی میں کسی کی کوئی حصہ داری نہیں ہے 31 ؎ اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور اس طرح اس زمین کے اندر جو کچھ ہے اور آسمانوں کے اوپر سب کا مالک و مختار اور سب کا علم رکھنے والا وہی اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہے۔ اسی ذات کریمی نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور وہی ہرچیز کا محافظ و نگہبان ہے۔ اسی نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور عقل و فکر سے نوازا اور اسی عقل و کر کے باعث ان کو مکلف بنا دیا۔ اس دنیا کے لئے قانون مکافات کو بھی رکھا اور آخرت کے قانون عدل کا بھی واضح الفاظ میں اعلان کردیا اور اس کی حکمتوں کا کوئی اندازہ کرسکتا ہے ؟ انسان کے اعمال کا یہ حال ہے کہ بعض اعمال وقتی ہوتے ہیں ان کی جزا و سزا بھی وقتی ہوتی ہے لیکن بعض اعمال انسان کے مرنے کے بعد بھی ایک مدت مدید تک باقی رہتے ہیں۔ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اعمال جو دیر تک زندہ رہنے والوں ہوں ان کا اجر وثواب بھی دیر تک جاری رہے اس لئے اس نے کسی انسان کے اعمال کا بدلہ اس دنیا میں ختم نہیں کردیا بلکہ اس کو مؤخر کر کے اس کے لئے ایک دن مقرر کردیا تاکہ اس دن گزشتہ سارے اعمال کا دروازہ بند کر کے اعمال کرنے والوں کا جو اجر وثواب ان کو ملتا ہے وہ مل جائے۔ تاکہ عدل و انصاف کے سارے تقاضے پورے ہوجائیں۔ لاریب اگر ایک اور صرف ایک دن مقرر نہ کیا جاتا اور اسی طرح اس نظام کو ایک بار ختم کر کے نئے سرے سے نیا نظام قائم نہ کیا جاتا تو عدل و انصاف کا تقاضا پورا ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ایک بیج جس اصل سے تعلق رکھتا ہو اس اصل کے سارے خواص اس کی اندر لازم و ضروری ہیں اور کوئی بیج ایسا ممکن نہیں جس کا تعلق کسی اصل سے ہو اور اس اصل کے خواص اس میں موجود نہ ہوں۔ اللہ رب ذوالجلال والا کرام ہر ایک انسان کے اعمال سے اچھی طرح واقف ہے کیونکہ وہ خود خالق ہے اور خالق سے مخلوق کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی پھر یہ کیونکر مان لی اجائے کہ وہ انسان کے برے اعمال اور اچھے اعمال سے باخبر نہ ہو اور جس طرح وہ ہر ایک انسان کے اچھے اور برے اعمال سے باخبر ہے اور اس نے ہر ایک انسان کو اچھے اعمال کرنے یا برے اعمال کرنے کا اختیار بھی دیا ہے تو ضروری ہے کہ اپنے اختیار سے اچھا کرنے والے کو انعام و اکرام سے نوازا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور برے اعمال کرنے والے کو جب کہ وہ اپنے اختیار سے برے اعمال کر رہا ہے سزا دی جائے اور اس کی حوصلہ شکنی بھی کی جائے۔ زی رنظر آیت میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے اعمال کا بدلہ دے جس نے برے اعمال کئے ہیں ظاہر ہے کہ وہ سزا کا مستحق ہے اور سزا دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اچھے اعمال کی جزا بھی اچھی ہوگی اور وہ جزا کا مستحق ہے اور جزا دینا اللہ رب کریم کا کام ہے لہٰذا یقینی ہے کہ وہ بدکاروں کو ان کی بدکاریوں کی سزا دے اور نیکوکاروں کو ان کی نیکیوں کی جزا دے اور یہی اس کا اپنا اعلان ہے جو زیر نظر آیت اور اس جیسی دوسری آیات کریمات میں کیا گیا ہے۔ (لیجزی الذین اساء و ابما عملوا و یجزی الذین احسنو بالحسنیٰ ) ۔
Top