Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 5
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ
فَاَمَّا : تو رہے ثَمُوْدُ : ثمود فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کہے گئے بِالطَّاغِيَةِ : اونچی آواز سے
سو وہ جو ثمود تھے، تو وہ ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے ہلاک کردیئے گئے
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُھْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ ۔ (الحآقۃ : 5) (سو وہ جو ثمود تھے، تو وہ ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے ہلاک کردیئے گئے۔ ) گزشتہ آیت میں ثمود اور عاد کے بارے میں بیان فرمایا کہ انھوں نے قیامت کا انکار کیا تو پھر یہ نہ سمجھو کہ ان کے اس انکار کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا بلکہ اس انکار کے نتیجے میں وہ ہلاکت کا شکار ہوئے۔ کیونکہ قیامت کا انکار صرف ایک واقعہ کا انکار نہیں بلکہ قوموں کے اخلاق اور ان کے مستقبل سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ چناچہ قوم ثمود نے آخرت کا انکار کرکے اسی دنیا کی زندگی کو اپنی اصل زندگی سمجھ کر اپنی منزل قرار دے دیا۔ اور چونکہ انہیں آخرت میں کسی جوابدہی کا اندیشہ نہیں تھا اس لیے وہ سخت اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوئے۔ دنیا ہی کو اپنی منزل بنا کر دنیا طلبی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں لگ گئے۔ اس راستے میں اگر اخلاقی قدریں حائل ہوئیں تو انہیں پامال کردیا گیا۔ انسانی رشتوں نے راستہ روکا تو ان کا خون بہایا گیا، کاروباری مصلحتوں نے اگر کسی چیز کی پابندی کا تقاضا کیا تو اسے فضول بات سمجھ کر رد کردیا گیا، تو آخر اس قیامت کے انکار کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بگاڑ ان کی تباہی کا باعث بنا اور وہ ایک سخت حادثے سے تباہ کردیئے گئے۔ الطَّاغِیَۃِ … طغیان سے مشتق ہے، جس کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں۔ طاغیہ کا معنی ہوگا وہ چیز جو اپنی حدودوقیود سے متجاوز ہوجائے۔ قوم ثمود بھی اللہ تعالیٰ کیخلاف طغیان میں مبتلاء ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جو آفت مسلط کی، اسے طاغیہ فرمایا گیا ہے۔ سورة الاعراف آیت 78 میں اس کو الرجفۃ یعنی زبردست زلزلہ کہا گیا ہے۔ اور سورة ہود آیت 67 میں اس کے لیے الصیحۃ یعنی زور کے دھماکے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ تینوں لفظ ایک ہی کیفیت کے مختلف نام ہیں۔ اس سے مراد ایسی سخت آواز ہے جس کو انسان کا قلب و دماغ برداشت نہ کرسکے۔ معلوم ہوتا ہے ان پر ایسا زلزلہ آیا جس میں دھماکے تھے۔ اور ہولناک آوازیں تھیں جس سے ان کے دل شق ہوگئے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ان پر بجلیاں بھی کو ندی ہوں اور ان کی وجہ سے ان دھماکوں میں مزید اضافہ ہوا ہو۔
Top