Siraj-ul-Bayan - Al-Fath : 23
سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ١ۖۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا
سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ : وہ جو قَدْ خَلَتْ : گزرچکا مِنْ قَبْلُ ښ : اس سے قبل وَلَنْ : اور ہرگز نہ تَجِدَ : تم پاؤگے لِسُنَّةِ اللّٰهِ : اللہ کا دستور تَبْدِيْلًا : کوئی تبدیلی
اللہ کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تو اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی (ف 2) نہ پائے گا
اللہ کا فیصلہ 2: غرض یہ ہے ۔ کہ مقام حدیبیہ پر جو صلح کا اقرارنامہ مرتب ہوا ۔ اس وقت مکہ والوں کا بھی فائدہ تھا ۔ وہ اگر جنگ کے در پے ہوتے اور صلح کے لئے آمادہ نہ ہوتے ۔ تو یہ بات یقینی تھی ۔ کہ وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوتے ناممکن تھا کہ وہ بہادران اسلام کا مقابلہ کرسکتے ۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت جارہی سے ۔ کہ پیغمبروں کے ماننے والے ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں ۔ یہ مقدارات میں سے ہے ۔ کہ جب جنگ ہوتا حق اور باطل کے درمیان ہو ۔ جب آویزش ہو ، نورا اور ظلمت میں اور جب تصادم ہوجائے ظالم اور مظلوم کے درمیان تو پھر فتح ونصرت اس طرف ہونی ہے ۔ جس طرف حق ہو ۔ نور ہو اور مظلومیت ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے اس مسلک میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی اور اس قانون کے نفاذ میں صدیوں اور قرنوں کے گزرنے پر بھی خلاف نہیں ہوتا ۔ یہ اسی طرح درست ہے جس طرح یہ درست ہے ۔ کہ دریا نس و خاشاک کو بہاکر لے جاتا ہے ۔ اور جس طرح یہ صحیح ہے ۔ کہ آگ ہر چیز کو جو اس میں ڈال دی جائے ۔ جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور ﷺ تک کئی ہزار انبیاء تشریف لائے ہیں ۔ اور پھر لاکھوں انسانوں نے ان کی مخالفت بھی کی ہے ۔ لیکن آپ نے تاریخ اقوام والم میں اس بات میں نمایاں طور پر دیکھا ہوگا ۔ ک کہ جب بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے ۔ اللہ کا غضب بھڑکا اور ان ظالموں اور نافرمانوں کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔ اور اس بات کی پرواہ نہیں کی گئی ۔ کہ یہ لوگ قلعوں اور بڑے بڑے محلات کے مال ہیں ۔ ان کے پاس سیم وزر کے انبار ہیں ۔ ان کے پاس رہنے کے لئے عمدہ عمدہ باغات ہیں ۔ اور یہ زندگی کی ہر آسودگی سے بہرہ مند ہیں ۔ بلکہ جب اللہ کا عذاب آیا ہے ۔ تو یہ لوگ زندگی کی ہر آسائیش سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور ان کی بدبختیوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ۔ حل لغات :۔ ایۃ ۔ نشانی اطفرکم علیھم ۔ تم کو ان پر قابو دے دیا
Top