Tadabbur-e-Quran - Maryam : 21
قَالَ كَذٰلِكِ١ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ١ۚ وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا١ۚ وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا
قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : یونہی قَالَ : فرمایا رَبُّكِ : تیرا رب هُوَ : وہ یہ عَلَيَّ : مجھ پر هَيِّنٌ : آسان وَلِنَجْعَلَهٗٓ : اور تاکہ ہم اسے بنائیں اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَرَحْمَةً : اور رحمت مِّنَّا : اپنی طرف سے وَكَانَ : اور ہے اَمْرًا : ایک امر مَّقْضِيًّا : طے شدہ
اس نے کہا یوں ہی ہوگا۔ تیرے رب کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے۔ اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ (وہ ہمارا رسول ہو) اور ہم اس کو لوگوں کے لیے اپنی ایک نشانی اور اپنی جانب سے ایک رحمت بنائیں۔ اور یہ ایک طے شدہ امر ہے
قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا ولنجعلہ کا معطوف علیہ یہاں بربنائے قرینہ محذوفہ۔ اگر اس کو کھول دیجیے تو پوری بات گویا یوں ہوگی کہ تمہارے رب کا ارشاد یہ ہے کہ ہم ایسا اس لیے کریں گے کہ اس کو بنی اسرائیل کے لیے رسول بنائیں اور وہ لوگوں کے لیے ہماری طرف سے ایک نشانی اور رحمت ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ ایک نشانی ہیں : حضرت عیسیٰ کا ایک نشانی ہونا قرآن میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو سورة انبیاء 91 اور مومنون آیت 50۔ ہمارے حضرت عیسیٰ ؑ کی خارق عادت ولادت قیامت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ نادانوں کو قیامت پر سب سے بڑا شبہ یہی تو ہوتا ہے کہ آخر اسباب کے بغیر لوگ کس طرح دوبارہ پیدا ہوجائیں گے۔ حضرت عیسیٰ کا وجود اس شبہ کا جواب ہے کہ ہر چیز اللہ کے کلمہ کن سے ظہور میں آتی ہے۔ حضرت عیسیٰ اسی کلمہ سے وجود میں آئے ہیں۔ چناچہ اسی بنیاد پر ان کو انجیل اور قرآن دونوں میں کلمۃ اللہ کہا بھی گیا ہے۔
Top