Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١٘ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
قَالَتْ : بولی وہ اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک يٰٓاَبَتِ : اے میرے باپ اسْتَاْجِرْهُ : اسے ملازم رکھ لو اِنَّ : بیشک خَيْرَ : بہتر مَنِ : جو۔ جسے اسْتَاْجَرْتَ : تم ملازم رکھو الْقَوِيُّ : طاقتور الْاَمِيْنُ : امانت دار
ان میں سے ایک نے کہا، ابا جان ! ان کو ملازم رکھ لیجیے۔ کیونکہ آپ کے لئے بہترین ملازم وہی ہوسکتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو
یہاں احد لھما، کے اعادے سے یہ بات نکلتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے حق میں یہ سفارش حضرت شعیب کی دوسری صاحبزادی نے فرمائی۔ اگر انہی نے یہ سفارش کی ہوتی جو ان کو بلانے کے لئے گئی تھیں تو یہاں فاعل کے اعادے کی ضرورت نہیں تھی۔ صاحب کردار کے کردار کا اندازہ ایک نظر کہہ دیا جاتا ہے حضرت شعیب کو اپنے گلے کی دیکھ بھال کے لئے ایک مددگار کی ضرورت تو تھی ہی اور قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ کسی موزوں آدمی کی تلاش میں بھی تھے۔ اس وجہ سے صاحبزادی صاحبہ نے سفارش کی کہ انہی کو ملازم رکھ لیجیے۔ بہترین ملازم وہی ہوتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو۔ یہ قوی بھی ہیں اور ساتھ ہی امانت دار بھی۔ جہاں تک جسمانی صحت و قوت کا تعلق ہے یہ ایک ایسی کھلی ہوئی چیز ہے کہ آدمی بیک نظر اس کا اندازہ کرسکتا ہے لیکن امانت و دیانت کا تعلق کردار سے ہے جس کا صحیح صحیح اندازہ تجزیہ سے ہوتا ہے۔ یہ تجزبہ عام حالات میں تو بہت دیر میں ہوتا ہے لیکن بعض حالات میں بالکل باول وہلہ ہوجاتا ہے۔ آدمی کو پیشانی اور اس کی نگاہیں گواہی دیتی ہیں کہ یہ کس کردار کا آدمی ہے۔ صاحبزادی صاحبہ نے حضرت موسیٰ کی مروت، بےنیازی اور پاکیزہ نگاہی کا تجربہ تو خود ہی کرلیا تھا پھر ان کی فتوت کی وہ سرگزشت، جو حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت شعیب کو سنائی، سن کر ان پر یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ اس عزم و ہمت کے آدمی کے اندر اگر امانت و دیانت نہ ہوگی تو بھلا کس میں ہوگی !
Top