Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
اس نے پوچھا، اسے فرستادو، اس وقت آپ کے سامنے مہم کیا ہے ؟
قال فما خطبکم ایھا المرسلون (31) حضرت ابراہیم ؑ کا سوال اور اس کی نوعیت حضرت ابراہیم ؑ کو جب اپنے باب میں اطمینان ہوگیا اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہ لوگ فرشتے ہیں تو انہوں نے ان سے سوال کیا کہ اے فرستادو ! اس وقت آپ لوگوں کے سامنے مہم کیا ہے ؟ یہ سوال انہوں نے اس وجہ سے کیا کہ ان پر یہ حقیقت، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، واضح تھی کہ فرشتے جب اس طرح آتے ہیں تو کسی بڑی مہم ہی پر آتے ہیں، مجرد فرزند کی خوشخبری مقصود ہوتیتو اس کے لئے اس اہتمام کی ضرورت نہیں تھی۔ لفظ خطبہ عربی میں کسی بڑے اور اہم کام ہی کے لئے آتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں چونکہ قوم لوط سے متعلق اندیشہ موجود تھا اس وجہ سے انہوں نے چاہا کہ اگر یہی مہم ہے تو بات واضح ہوجائے۔ خاص طور پر ان کو حضرت لوط ؑ ، ان کے اہل بیت اور ان کے ساتھیوں کی بڑی فکر تھی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔ چناچہ دوسرے مقام میں تفصیل بھی موجود ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ پر یہ بات واضح ہوئی کہ قوم لوط پر عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے تو انہوں نے قوم لوط کے اہل ایمان کے باب میں اپنے رب سے بڑا مجادلہ کیا۔ اس مجادلہ کی اللہ تعالیٰ نے بڑی تعریف فرمائی ہے اور اس کو حضرت ابراہیم کی دردمندی کی شہادت میں پیش کیا ہے۔
Top