Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
(56۔ 58) دواہم حقیقتوں کا بیان قریش کے لیڈروں سے اعراض کے حکم کے بعد ان آیات میں دو نہایت اہم حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہی۔ اول اس حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو جو پیدا کیا ہے تو اپنی کسی احتیاج کے لئے نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ ہر حال میں ان کی ناز برداری کرتا رہے۔ اس کی سلطنت اپنے بل بوتے پر قائم رہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ لوگ ہی اس کے محتاج ہیں۔ اس نے ان کو اس لئے پیدا کیا کہ اس کی عبادت و اطاعت کا حق ادا کرکے سعادت و کمال کے مدارج حاصل کریں جو اس نے ان کے لئے مقدر کر رکھے ہیں۔ اسی مقصد کی یاددہانی کے لئے اس نے اپنے رسول بھیجے تاکہ لوگوں پر اصل حقیقت واضح ہوجائے لیکن رسول کی ذمہ داری صرف حق کو واضح کردینے کی ہے۔ یہ ذمہ داری اس پر نہیں ہے کہ لوگ اس حق کو لازماً قبول بھی کرلیں۔ رسول نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اگر لوگ اس کی دعوت کو قبول نہیں کررہے ہیں تو اپنے ہی کو تباہ کررہے ہیں۔ خدا اور اس کے رسول کا کچھ نہیں بگاڑ رہے ہیں کہ ان کو ہر قیمت پر کسی نہ کسی طرح راضی کرنے ہی کی کوشش کی جائے۔ گویا اوپر والی آیت میں رسول اللہ ﷺ کو قریش کے لیڈروں سے اعراض کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے ان آیات میں اس کی وجہ بیان فرما دی گئی ہے کہ ان مستکبرین کے بغیر خدا کا کوئی کام بند نہیں ہوجائے گا کہ تم ان کے پیچھے اپنے کو ہلکان رکھو۔ دوسرے اس حقیقت کی طرف کہ اللہ کے دین کی دعوت اپنا زاد وراحلہ اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ جو لوگ اس دعوت کو لے کر اٹھیں ان کا سارا بھروسہ اپنے رب پر ہونا چاہیے۔ انہیں یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی عبادت و اطاعت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہی چیز ان کی خلقت کی غایت اور ان کی زندگی کا نصب العین ہے جس کا پورا ہونا ہر شکل میں مطلوب ہے۔ اس کی خاطر تو وہ ہر چیز قربان کرسکتے ہیں لیکن اس کو کسی چیز پر بھی قربان نہیں کرسکتے۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ اس جرم میں ان کے دشمن ان پر تمام معاشی راہیں مسدود کردیں گے جب بھی انہیں اپنے موقف حق پر ڈٹے رہنا اور یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اپنے مقصد حیات سے انحراف اختیار نہ کیا تو اللہ تعالیٰ دشمنوں کے علی الرغم ان کے لئے رزق کی ایسی راہیں کھولے گا جن کا گمان نہ ان کو ہوگا اور نہ ان کے دشمنوں کو رزاق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ بڑی ہی محکم قوت وتدبیر کا مالک ہے کسی بڑے سے بڑے دشمن کی قوت بھی اس کی قوت پر غالب نہیں آسکتی۔ یہ گویا نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو، دعوت کے اس دور میں جب کفار ان کو مکہ سے نکال دینے اور تمام معاشی راہیں ان پر بند کردینے کی اسکیمیں سوچ رہے تھے، تسلی دی گئی ہے کہ تم اللہ واحد کی بندگی کے اس نصب العین پر ڈٹے رہو جس کے لئے تمہارے رب نے تم کو پیدا کیا ہے۔ رزاق حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ تمہارے لئے غیب سے رزق کی راہیں کھولے گا۔ بندوں کا فرض اپنے رب کی بندگی کرنا ہے۔ رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی ہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کے پورا کرنے میں کسی پہلو سے بھی عاجز نہیں ہے۔ یہ مضمون قرآن میں ان مواقع میں خاص طور پر بیان ہوا ہے جہاں نبی ﷺ کو قریش کے اعتبار سے بےنیاز ہو کر اپنے موقف حق پر ثابت قدم رہنے کی ہدایت فرمائی گئی بعض آیتیں ہم بطور مثال نقل کرتے ہیں۔ وامراھلک بالصلوٰۃ واصطبرعلیھا، لانسئلک رزقاً ، نحن نرزقک والعاقبۃ للتقویٰ (طٰہ : 132) اور تم اپنے لوگوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر جمے رہو ہم تم سے رزق رسانی کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تم کو رزوی دیں گے اور انجام کار کی کامیابی تقویٰ ہی کے لئے ہے۔ یہی مضمون دوسرے الفاظ میں یوں آیا ہے۔ لاتمدن عینیک الیٰ ما متعنابہ ازواجاً منھم ولاتحزن علیھم واخفص جناحک للمؤمنین (الحجر : 88) اور ہم نے ان کفار کی بعض جماعتوں کو جن چیزوں سے بہرہ مند کررکھا ہے اس کی طرف نگاہ نہ اٹھائو اور نہ ان کے حال پر غم کرو اور اپنی شفقت کے بازو اہل ایمان پر جھکائے رکھو۔ کلام کا موقع ومحل سمجھ لینے کے بعد ایک نظر اس کے اجزاء پر بھی ڈال لیجئے۔ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ اس آیت میں لفظ عبادت، اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے یعنی رب کی بندگی اور اس کے احکام کی اطاعت۔ مقصود اس حقیقت کا پتہ بتادینے سے زندگی کے اصل نصب العین کو سامنے رکھ دینا ہے تاکہ ہر انسان واضح طور پر جان لے کہ اسے کس مقصد کے لئے جینا اور کس مقصد کے لئی مرنا ہے۔ یہ امر واضح رہے کہ خدا کی بندگی اس لئے مطلوب نہیں ہے کہ خدا کسی کی بندگی کا محتاج ہے بلکہ قرآن میں جابجا یہ تصریح ہے کہ بندے ہی اس کی بندگی کے محتاج ہیں اس لئے کہ ان کی رفعت وبلندی کا زینہ یہ بندگی ہی ہے۔ اگر اس بندگی سے وہ منحرف ہوجائیں تو پھر ان کی حیثیت حیوانات سے زیادہ نہیں رہ جاتی بلکہ وہ ان سے بھی فرد تر درجے میں گرجاتے ہیں۔ یہاں جنوں اور انسانوں دونوں کا ذکر ایک درجہ کی مخلوق کی حیثیت سے کیا ہے، اس لئے کہ ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اختیار کے شرف سے مشرف فرمایا ہے اور دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں مساوی درجے میں مسئول اور بندگی رب کا حق ادا کرنے کی صورت میں یکساں اجروشرف کے حق دار ہیں۔ مآاریدمنھم من رزق ومآاریدان یطعمون، یہ اس امر کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی کسی ضرورت کے لئے نہیں پیدا کیا ہے کہ ان کے بغیر اس کا کوئی کام بند ہوجائے۔ اس نے نہ تو اپنی مخلوق کی رزق رسانی کی ذمہ داری ان پر ڈالی ہے اور نہ وہ خود کھانے پینے کا محتاج ہے کہ ان سے یہ چاہے کہ وہ اس کو کھلائیں بلکہ وہ خود ہی سب کا روزی رساں ہے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ انسان کود اپنے یا اپنی آل واولاد کے رزق کے لئے اس دنیا میں جو جدوجہد کرتا ہے اس میں اس کی حیثیت ایک آلہ اور ذریعہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ اس کی کوششوں کو بارآور کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اگر اس کا فضل نہ تو آدمی کی ساری محنت اکارت ہو کے رہ جائے۔ چناچہ فرمایا۔ افرء یتم ماتحرثون، ع انتم تزرعونہ امر نحن الزرعون (الواقعہ : 63۔ 64) (غور تو کرو اس چیز پر جو تم بولتے ہو، کیا تم اس کو پروان چڑھاتے ہو یا ہم اس کو پروان چڑھانے والے ہیں) ومآاریدان یظعمون، میں مشرک قوموں کے اس وہم پر بھی ایک ضرب ہے جو وہ اپنی دیوتائوں کی نسبت رکھتی ہیں کہ وہ ان کی پیش کردہ قربانیوں سے بہرہ مند اور محظوظ ہوتے ہیں۔ ان اللہ ھوالرزاق ذوالقوۃ المتین۔ یعنی حالات کی ظاہری نامساعدت سے بددل ہو کر کوئی خدا کی رزق رسانی وکارسازی کے باب میں کسی شک میں مبتلا نہ ہو۔ رزاق حقیقی اللہ تعالیٰ ہی اور وہ بڑی ہی محکم قوت کا مالک ہے۔ حالات کی نامساعدت اور مخالفوں کی مزاحمت اس کی تدبیروں کو شکست نہیں دے سکتی۔ ذوالقوۃ المتین، کی وضاحت مولانا فراہی ؒ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمائی ہے۔ ”لفظ متین، پر چونکہ وقف ہے اس وجہ سے اس کا اعراب ظاہر نہیں ہوتا اور جب اعراب ظاہر نہیں ہوتا تو اس کی قراءت میں کسی اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس کا اعراب ہے کیا ؟ بعض اس کو مجرور سمجھتے اور اس کو قوۃ، کی صفت قرار دیتے ہیں، قوت، دراصل رسی کی لڑکو کہتے ہیں اور رسی کی مضبوطی کے لئے عربی میں لفظ متین، معروف ہے۔ ایک شبہ یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ لفظ، قوت، مؤنث ہے اور متین، مذکر ہے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہی کہ ’ متین ‘ فعیل کے وزن پر ہے اور یہ وزن عربی میں مذکر اور مؤنث دونوں ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ارشاد ہے ان رحمت اللہ قریب من المحسنین (الاعراف : 56) (اللہ کی رحمت محسنون کے قریب ہے)“۔ ”بعض متین، اللہ تعالیٰ کی صفت کی حیثیت سے قرآن میں کہیں اور نہیں استعمال ہوا ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کا فاعل محذوف مانا جائے یعنی المتین قوتہ، اس طرح یہ اختلاف محض اعراب کا اختلاف ہوگاء معنی میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوگا۔“
Top