Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 4
وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِۙ
وَّالْبَيْتِ : اور قسم ہے گھر کی الْمَعْمُوْرِ : آباد
اور شاہد ہے آباد گھر
والبیت المعمور (4) (بیت معمور سے مراد) بیت معمور سے عام طور پر مفسرین نے جنت کے اندر ایک گھر کو مراد لیا ہے جو فرشتوں کے لیے آسمان میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو زمین میں انسانوں کے لیے بیت اللہ الحرام کی ہے۔ لیکن یہ قول ہمارے نزدیک، یہاں غیر متعلق ہے۔ اس طرح کا کوئی گھر جنت میں ہے تو اس کی شہادت اس دعوے کے حق میں کیا وزن رکھتی ہے جو اس قسم کے بعد پیش کیا گیا ہے ؟ ہمارے مفسرین کو چونکہ یہ غلط فہمی ہے کہ قسم جس چیز کی کھائی جائے وہ کوئی مقدس چیز ہونی چاہئے، اس وجہ سے وہ صرف مقسم بہ کے تقدس کو دیکھتے ہیں حالانکہ اصل دیکھنے کی چیز مقسم بہ کا تقدس نہیں بلکہ پیش کردہ دعوے پر اس کی شہادت کا پہلو ہے۔ اس پہلو سے غور کیجئے تو دعوے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض لوگوں نے اس سے بیت اللہ کو مراد لیا ہے۔ یہ قول اس پہلو سے تو وزن دار ہے کہ بلدر امین کی قسم رہ تین میں جزا اور سزا کے حق ہونے پر کھائی گئی ہے۔ بیت اللہ چونکہ اسی بلدامین میں واقع ہے اس وجہ سے اس کی شہادت بھی اپنے اندر ایک معنویت رکھتی ہے لیکن سیاق وسباق اس قول کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بعد سقف مرفوع، کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس سقف مرفوع سے بیت اللہ کی چھت ظاہر ہے کہ مراد نہیں ہو سکتی۔ اس سے آسمان ہی مراد ہوسکتا ہے اور مفسرین نے آسمان ہی کو مراد لیا بھی ہے۔ اگر اس سے آسمان ہی مراد ہے تو بیت اللہ کی قسم کے بعد آسمان کی قسم اور اس کے بعد دریا کی قسم یہ کچھ بےجوڑ سی قسمیں ہوجاتی ہیں۔ ان کے اندر وہ ہم رنگی و ہم آہنگی باقی نہیں رہتی جو طور اور کتاب مسطور والی قسم میں پائی جاتی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ بیت معمور سے مراد یہ زمین ہے جس پر آسمان کی چھت پھیلی ہوئی ہے۔ اس خیال کی تائید میں کئی باتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ زمین کے لیے بیت کا استعارہ نہایت موزوں ہے۔ قرآن نے جگہ جگہ اس کو مہار اور قدار وغیرہ الفاظ میں تعبیر فرمایا ہے نیز زمین کو فرش اور آسمان کو اس کی چھت سے مثال دے کر اس کے گھر ہونے کو نہایت خوبصورت طریقہ پر ممثل بھی کردیا ہے۔ دوسری یہ کہ اس کے بعد آسمان کا ذکر اس بات کا نہایت واضح قرینہ ہے کہ اس سے زمین ہی مراد لی جائے۔ قرآن میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے زمین اور آسمان دونوں کا ذکر ساتھ ہوا ہے۔ تیسری یہ کہ قرآن میں جگہ جگہ اس حقیقت کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی پرورش کے لیے جو گونا گوں اسباب و وسائل مہیا فرمائے ہیں وہ اس بات کی نہایت واضح دلیل ہیں کہ انسان اس دنیا میں شتر بےمہار نہیں ہے بلکہ وہ اپنے رب کے آگے جواب دہ ہے۔ لفظ معمور یہاں زمین کے انہی اسباب و وسائل اور اس کے لازمی نتیجہ یعنی مسئولیت اور جواب دہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ چوتھی یہ کہ سابق سورة الذریت میں فرمایا ہے کہ وفی الارض ایت للموقنین (20) (اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے) نیز فرمایا ہے کہ (22) (اور آسمان میں تمہارا رزق بھی ہے اور وہ چیز بھی جس سے تم کو ڈرایا جا رہا ہے) ان آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے ہم زمین و آسمان کی ان نشانیوں کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قانون مجازات اور اس کے عذاب پر گواہ ہیں۔ بعینہٖ اسی چیز پر زمین و آسمان کی گواہی یہاں بھی پیش کی گئی ہے، صرف اسلوب ِ بیان کا فرق ہے۔ ان مختلف وجوہ سے ہمارے نزدیک اس سے مراد زمین ہے اور لفظ معمور سے اس کا موصوف ہونا خدا کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کی ان شانوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس سے قرآن نے جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے عدل اور جزاء و سزا پر استدلال فرمایا ہے اور جس کی وضاحت اس کتاب میں ہم برابر کرتے آ رہے ہیں۔
Top