Mazhar-ul-Quran - Al-Maaida : 2
وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِۙ
وَّالْبَيْتِ : اور قسم ہے گھر کی الْمَعْمُوْرِ : آباد
اے مسلمانو ! بےحرمتی نہ کرو خدا کی نشانیوں کی اور نہ ادب والے مہینے کی اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانی کی اور نہ جانوروں کی کہ جن کی گردنوں میں (بطور علامت کے) پٹے ڈال دیتے ہیں اور نہ بیت الحرام کے قصد کرنے والوں کی کہ اپنے پروردگار سے فضل اور خوشنودی چاہتے ہیں، اور جب تم احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو اور تم کو دشمنی کسی گروہ کی کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا زیادتی کرنے پر نہ ابھارے ، اور ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو بھلائی اور ظلم پر اور ڈرو اللہ سے ، بیشک خدا کا عذاب سخت ہے
شان نزول : جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص شریح بن ہند مدینہ میں آکر مسلمان ہوگیا تھا، اور اپنے وطن میں جاکر مرتد ہوگیا اور اس قصہ کے ایک سال کے بعد اس نے حج کا قصد کیا ۔ صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ ی سے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو شریح بن ہند کے ساتھ جو نیاز کعبہ کے جانور اور تجارت کا مال ہے اس کو ہم لوٹ لیں ۔ آپ نے فرمایا : '' یہ کیونکر ہوسکتا ہے وہ تو نیاز کے جانور لے کر حج کے ارادہ سے جارہا ہے ، '' اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ احرام باندھنا ، قربانی کے جانوروں کا ساتھ لینا ، احرام کے مہینوں میں حج کے ارادہ سے سفر کرنا، پہچان کے لئے قربانی کے جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال دینا یہ سب باتیں حج کے ارادہ میں اللہ کی تعظیم کی نشانیاں ہیں ۔ احرام کے مہینے شروع شوال سے لے کر ذوالحجہ کی دسویں تک ہیں ۔ اس تعظیم کے مہینے میں لوٹ مار کرنا اور اللہ کی تعظیم کی نشانیون کی توہین کرنا مسلمانوں کو جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ حاجی لوگ اگرچہ حج کے سفر میں تجارت کا مال بھی ساتھ رکھیں لیکن اصل قصد ان کا حج سے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ حالت احرام میں خوش کی کے جانوروں کا شکار جو منع تھا اب آگے فرمایا کہ احرام کے کھل جانے کے بعد وہ ممانعت باقی نہیں رہتی۔ شان نزول : اس کا یہ ہے کہ قصہ حدیبیہ کے بعد کچھ مشرکین مدینہ کی راہ سے عمرہ کی نیت سے مکہ جاتے تھے ۔ صحابہ کرام نے اجازت چاہی کہ جس طرح انہوں نے حدیبیہ کے قصہ کے وقت مکہ میں جانے اور عمرہ کرنے سے روکا تھا ہم بھی ان کو روکیں ، اس پر یہ آیت نازل فرمائی ۔ حاصل معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ صلح حدیبیہ کے بعد ان لوگوں سے دشمنی کا بدلہ لینا صلح کی شرط کے خلاف ہے ۔ ایسی ناجائز باتیں مسلمانوں کو نہیں چاہئیں بلکہ آپس میں اتفاق چاہئے اور خدا کا خوف دل میں رہے کیونکہ خدا کا عذاب بڑا سخت ہے ۔
Top