Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہے کہ جو چیز جاتی رہے اس پر غم نہ کرو اور نہ اس چیز پر اترائو جو اس نے تمہیں بخشی ہے اور یاد رکھو کہ اللہ اکڑنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
(لکیلا تا سوا علی ما قد تکم ولا تفرحوا بما اتکم واللہ لا یحب کل مختال فخور الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل ومن یتول فان اللہ ھو الغنی الحمید) (23، 24) (تقدیر کا فلسفہ)۔ یہاں لگی سے پہلے کچھ حذف ہے۔ اس کو کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہوگی کہ اس موقع پر تمہیں اس حقیقت کی یاددہانی اس لیے کرائی جا رہی ہے کہ نہ تم کسی چیز کے قوت ہونے پر غور کرو اور نہ کسی چیز پر جو تمہیں ملے اترائو اور فخر کرو، بلکہ اس عقیدے کی روشنی میں تمہارا کردار یہ ہونا چاہیے کہ تمہیں کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچے تو اس پر صبر کرو کہ یہ نوشتہ تقدیر کے مطابق پہنچا ہے اور اسی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور اگر کوئی نفع پہنچے تو اس پر اپنے رب کے شکر گزار بنو کہ اسی نے تمہیں اپنے فضل سے نوازا ہے۔ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اترانے نہ لگو کہ یہ تمہاری تدبیر و قابلیت کا ثمرہ اور تمہارے استحقاق کا کرشمہ ہے۔ (واللہ لا یحب کل مختال فخور) جو لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتیں پا کر اکڑنے والے بن جاتے ہیں انہیں یہ بات یاد رکمنی چاہیے کہ اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ پسند نہیں کرتا کے الفاظ اگرچہ بظاہر نرم ہیں لیکن باعتبار معنی بہت سخت ہیں۔ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ بسا اوقات اس طرح کے منفی اسلوب میں جو بات کہی جاتی ہے اس کو مثبت اسلوب میں کہیں تو وہ یوں ادا ہوگی کہ ان اللہ یبغض کل مختال فخور لیکن متکلم صاف لفظوں میں بات کہنے کے بجائے اپنے تیور اور لب و لہجہ سے اپنی شدت نفرت کا اظہار کردیتا ہے۔ (الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل) یہ ان کے اسی کردار کے دوسرے پہلے کی طرف اشارہ ہے کہ اس طرح کے لوگ چونکہ اس خبط میں مبتلا ہوتے ہیں کہ انہیں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اپنی تدبیر سے حاصل ہوتا ہے اس وجہ سے وہ اپنی نمائش و آرائش و نکاثر و تفاخر کے سودا دین و ملت کی راہ میں خرچ کرنے کو خسارہ اور تاوان سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے کاموں میں وہ خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ ان کی بخالت پر پردہ پڑا رہے۔ بخیلوں کے کردار کا یہ پہلو قرآن میں بعض جگہ واضح فرمایا گیا ہے کہ ان کی خواہش اور کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ جس طرح وہ بخیل ہیں اسی طرح دوسرے بھی بخیل بنے رہیں تاکہ ان کی بخالت پر پردہ پڑا رہے۔ لفظ ’ امر ‘ یہاں مشورہ دینے کے معنی میں ہے۔ اس معنی میں یہ لفظ معروف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ دوسروں کو دینی و ملی کاموں میں خرچ کرتے دیکھتے ہیں تو ان کو خیر خواہانہ انداز میں مشورے دیتے ہیں کہ بہت شاہ خرچ مت بنو ورنہ کوئی سخت وقت آپڑا تو پچھتائو گے اور اس وقت کوئی مدد کرنے والا نہیں بنے گا۔ (ومن یتول فان اللہ ھوا الغنی الحمید) یہ اس طرح کے بخیلوں سے نہایت تہدید آمیز الفاظ اظہار بےنیازی و اعلان بیزاری ہے کہ اگر یہ لوگ اس تذکیرو تعلیم کے بعد بھی اعراض ہی کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ یاد رکھیں کہ خدا بھی ان سے بالکل بےنیاز ہے، اللہ تعالیٰ ان کو انفاق کی دعوت دے رہا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے بلکہ اس نے یہ اپنے بندوں کے لیے (جیسا کہ آیت 18 میں بیان ہوا) ایک ابدی نفع کمانے کی راہ کھولی ہے۔ ’ غنی ‘ کے ساتھ صفت ’ حمید ‘ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بالکل بےنیاز و بےپروا ہے۔ اسے کسی کی حاجت نہیں، وہ لوگوں سے مانگتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ ان کا محتاج ہے بلکہ وہ ’ حمید ‘ ہے اس وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ اس طرح وہ لوگوں کو اپنے افضال کا حق دار بنائے اور ان کے دیئے ہوئے خزف ریزوں کو ایک لازوال خزانے کی شکل میں تبدیل کر کے ان کو واپس کرے۔
Top