Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 64
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْئَرُوْنَؕ
حَتّيٰٓ اِذَآ : یہاں تک کہ جب اَخَذْنَا : ہم نے پکڑا مُتْرَفِيْهِمْ : ان کے خوشحال لوگ بِالْعَذَابِ : عذاب میں اِذَا هُمْ : اس وقت وہ يَجْئَرُوْنَ : فریاد کرنے لگے
یہاں تک کہ جب ہم اُن کے عیّاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے 59 تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے 60
سورة الْمُؤْمِنُوْن 59 " عیاش " یہاں " مُتْرَفِیْن " کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ " مترفین " اصل میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیاش سے ادا ہوجاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔ عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 60 اصل میں لفظ " جُؤَار " استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد و فغان کے معنی میں نہیں بلکہ اس شخص کی فریاد و فغان کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہوا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ " اچھا، اب جو اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے "
Top