Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 64
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْئَرُوْنَؕ
حَتّيٰٓ اِذَآ : یہاں تک کہ جب اَخَذْنَا : ہم نے پکڑا مُتْرَفِيْهِمْ : ان کے خوشحال لوگ بِالْعَذَابِ : عذاب میں اِذَا هُمْ : اس وقت وہ يَجْئَرُوْنَ : فریاد کرنے لگے
یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب کے ساتھ پکڑ لیں گے تو وہ چلائیں گے
1۔ نسائی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” حتی اذا اخذنا مترفیہم بالعذاب “ سے مراد ہے بدر کے مقتول یعنی وہ کافر جو جنگ بدر میں مقتول ہوئے۔ 2۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت ” حتی اذا اخذنا مترفیہم بالعذاب “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کو اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن قتل کیا۔ 3۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” حتی اذا اخذنا مترفیہم بالعذاب “ سے وہ کافر مراد ہیں جو بدر کے دن تلوار کے ساتھ قتل کیے گئے آیت ” اذا ہم یجئرون “ جبکہ یہ لوگ مکہ میں گڑ گڑاتے تھے۔ 4۔ عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” حتی اذا اخذنا مترفیہم بالعذاب “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو بدر کے دن تلوار کے ساتھ قتل کیے گئے۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” اخذنا مترفیہم “ سے ان کے تکبر کرنے والے لوگ سے مراد ہیں۔ 6۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” اذا ہم یجئرون “ یعنی وہ مدد طلب کرتے ہیں۔ آیت ” فکنتم علی اعقابکم تنکصون “ یعنی تم پیٹھ پھیر کر جارہے تھے۔ آیت ” سٰمرا تہجرون “ یعنی تم قصہ گوئی کرتے ہو بیت اللہ کے ارد گرد اور تم بیہودہ بکتے ہو۔ 7۔ عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” تنکصون “ سے مراد ہے کہ تم پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ 8۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے سے روایت کیا کہ آیت ” مستکبرین بہ “ یعنی تم بیت اللہ اور بیت الحرام کی وجہ سے تکبر کرتے ہوئے ” سمرا “ یعنی ان کی قصہ گوئی کا کوئی خوف نہ تھا۔ کیونکہ ان کو امن دیا گیا تھا جبکہ عرب کے لوگ رات کے وقت قصہ گوئی اور مجلس کرنے والے کے بارے میں ڈرتے تھے اور وہ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے اور مکہ والوں کو اس کا خوف نہ تھا بوجہ اس امن کے جو ان کو (بیت اللہ کی وجہ سے) دیا گیا تھا آیت ” تہجرون “ یعنی تم شرک کرتے ہو اور بہتان لگاتے ہو اللہ کے حرم میں اور بیت اللہ کے پاس اور حسن فرمایا کرتے تھے کہ آیت ” سمرا تہجرون “ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اللہ کے نبی ﷺ کے خلاف بیہودہ بکتے ہو۔ 9۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” مستکبرین بہ “ یعنی میرے حرم کی وجہ سے (وہ تکبر کرتے تھے) آیت ” سمر تہجرون “ یعنی تم لوگ قرآن، میرے ذکر اور میرے رسول کا مذاق اراتے ہو۔ 10۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” مستکبرین بہ “ یعنی وہ اللہ کے حرم کی وجہ سے (تکبر کرتے تھے) کیونکہ حرم کی حدود میں ان پر کوئی غالب نہیں آیا۔ 11۔ عبد بن حمید نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” مسکتبرین بہ) یعنی وہ میرے حرم میں تکبر کرتے ہیں ” سامرا “ اور رات کو ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کو مناسب نہیں۔ 12۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” مسکتبرین بہ “ یعنی وہ مکہ شہر کی وجہ سے تکبر کرتے تھے (کہ وہ اس کے رہنے والے ہیں) ” سامرا “ یعنی قصہ گوئی کی مجلس کرنے والا ” تہجرون “ یعنی تم لوگ قرآن کے بارے میں نازیبا باتیں کرتے ہو۔ 13۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا آیت ” مستکبرین بہ “ یعنی قرآن کے ساتھ (بیہودہ باتیں کرتے ہو) لہو لعب باطل باتیں حرام ہیں 14۔ الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ارزق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” سمرا تہجرون “ کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ لوگ لہو و لعب اور باطل باتیں کرتے تھے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو کہتے ہوئے نہیں سنا۔ وباتو بشعب لہم سامرا اذاخب نیرانہم او قدوا ترجمہ : اور انہوں نے رات گزاری اپنی گھاٹی میں قصہ گوئی کرتے ہوئے جب ان کی آگ بجھ جاتی تو وہ نئے سرے سے جلا لیتے۔ 15۔ سعید بن منصور وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ قریش بیت اللہ کے ارد گرد بیٹھ کر قصہ گوئی کرتے تھے اور طواف نہیں کرتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری آیت ” مستکبرین بہ سمرا تہجرون “ 16۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے ” سمرا تہجرون “ کے بارے میں روایت کیا کہ قریش بیت اللہ کے اردگرد حلقے بنا کر باتیں کیا کرتے تھے۔ 17۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ والحاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی آیت ” مستکبرین بہ سمرا تہجرون “ کہ مشرکین اپنی قصہ گوئی کی باتوں میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بیہودہ بکتے تھے۔ 18۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا آیت ” سمرا تہجرون “ تاء کے نصب اور جیم کے رفع کے ساتھ۔ 19۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا آیت ” سمرا تہجرون “ سے مراد ہے کہ جب وہ قصہ گوئی کرتے تھے تو بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ 20۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” سمرا تہجرون “ سے مراد ہے کہ وہ حق کو چھوڑتے ہیں (اور حق کا مذاق اڑاتے ہیں) 21۔ النسائی وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قصہ گوئی کو ناپسند کیا جانے لگا جب یہ آیت نازل ہوئی آیت ” مستکبرین بہ سمرا تہجرون “ یعنی وہ بیت اللہ کی وجہ سے تکبر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس کے رہنے والے ہیں آیت ” تہجرون “ کہ وہ بیت اللہ کو چھوڑے رکھتے اور اس کو آباد نہیں کرتے تھے (یعنی طواف نہ کرتے تھے )
Top