Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 64
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْئَرُوْنَؕ
حَتّيٰٓ اِذَآ : یہاں تک کہ جب اَخَذْنَا : ہم نے پکڑا مُتْرَفِيْهِمْ : ان کے خوشحال لوگ بِالْعَذَابِ : عذاب میں اِذَا هُمْ : اس وقت وہ يَجْئَرُوْنَ : فریاد کرنے لگے
یہاں تک کہ جب پکڑیں گے ہم ان کے آسودہ لوگوں کو آفت میں تبھی وہ لگیں گے چلانے
مُتْرَفِيْهِمْ ، مترف، ترف سے مشتق ہے جس کے معنے تنعم اور خوشحالی کے ہیں۔ اس جگہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کا ذکر ہے جس میں امیر غریب خوشحال بدحال سبھی داخل ہوں گے مگر مترفین اور خوشحالوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا کہ ایسے ہی لوگ دنیا کے مصائب سے اپنے بچاؤ کا کچھ سامان کرلیا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو سب سے پہلے یہی لوگ بےبس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس آیت میں جس عذاب کے اندر ان کے پکڑے جانے کا ذکر ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار سے ان کے سرداروں پر پڑا تھا۔ اور بعض حضرات نے اس عذاب سے مراد قحط کا عذاب لیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی بددعا سے مکہ والوں پر مسلط کردیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ مردار جانور اور کتے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے کفار کے لئے بددعا بہت کم کی ہے لیکن اس موقع میں مسلمانوں پر ان کے مظالم کی شدت سے مجبور ہو کر یہ بددعا کی تھی۔ اللھم اشدد وطاتک علی مضر واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (رواہ البخاری ومسلم)۔ (قرطبی و مظھری)
Top