Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 185
اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ١ۙ وَّ اَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ١ۚ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَنْظُرُوْا : وہ نہیں دیکھتے فِيْ : میں مَلَكُوْتِ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز وَّاَنْ : اور یہ کہ عَسٰٓي : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو قَدِ اقْتَرَبَ : قریب آگئی ہو اَجَلُهُمْ : ان کی اجل (موت) فَبِاَيِّ : تو کس حَدِيْثٍ : بات بَعْدَهٗ : اس کے بعد يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائیں گے
کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ 143اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلتِ زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو؟144 پھر آخر پیغمبر ؐ کی اِس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے۔ جس پریہ ایمان لائیں؟
سورة الْاَعْرَاف 143 رفیق سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے، انہی کے درمیان رہے بسے، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے۔ نبوت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکایک آپ کو مجنون کہنے لگی۔ ظاہر ہے کہ یہ حکم جُنون ان باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف انہی باتوں پر لگایا جارہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی۔ اسی وجہ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے ؟ کونسی بات بےتکی، بےاصل اور غیر معقول ہے ؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظر تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہوجاتا کہ شرک کی تردید، توحید کے اثبات، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ ان کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظام کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے۔ سورة الْاَعْرَاف 144 یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آگیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہوگئی تو آخر اس کا حشر کیا ہوگا۔
Top