Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 185
اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ١ۙ وَّ اَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ١ۚ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَنْظُرُوْا : وہ نہیں دیکھتے فِيْ : میں مَلَكُوْتِ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز وَّاَنْ : اور یہ کہ عَسٰٓي : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو قَدِ اقْتَرَبَ : قریب آگئی ہو اَجَلُهُمْ : ان کی اجل (موت) فَبِاَيِّ : تو کس حَدِيْثٍ : بات بَعْدَهٗ : اس کے بعد يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائیں گے
کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں اور جو چیز خدا نے پیدا کی ہیں ان پر نظر نہیں کی ؟ اور (اس بات پر خیال نہیں کیا) کہ عجب نہیں کہ ان (کی موت) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو ؟ تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے ؟
آیت نمبر : 185 قولہ تعالیٰ : آیت : اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : اولم ینطروا یہ قرآن کریم کی آیات میں نظر وفکر کرنے سے ان کے اعراض کرنے پر اظہار تعجب ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کو پہچان سکتے، جیسا کہ ہم نے انہیں سورة البقرہ میں بیان کیا ہے۔ اور ملکوت مبالغہ میں سے ہے۔ اور اس کا معنی ہے وسیع مملکت، عظیم سلطنت۔ مسئلہ نمبر : 2 جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں نظر و فکر کرنا اور اس کی مخلوقات سے عبرت حاصل کرنا واجب ہے انہوں نے اس آیت اور اس کی مثل دیگر آیات سے استدلال کیا ہے مثلا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل انظروا ما فی السموت والارض (یونس : 101) ( فرمائیے غور سے دیکھو ! کیا کیا ( عجائبات) ہیں آسمانوں اور زمین میں) آیت : افلم ینظروا الی السماء فوقھم کیف بنینٰھا (ق :: 6) کیا انہوں نے نہیں دیکھا آسمان کی طرف جو ان کے اوپر ہے ہن نے اسے کس طرح بنایا ہے۔ آیت : افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت الایہ (الغاشیہ) ( کیا یہ لوگ ( غور سے) اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے ( عجیب طرح) پیدا کیا گیا ہے) آیت : وفی انفسکم افلا تبصرون (الذاریات) ( اور تمہارے وجود میں بھی ( نشانیاں ہیں) کیا تمہیں نظر نہیں آتیں) انہوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے نظرو فکر نہ کرنے والوں کی مذمت بیان کی ہے اور ان کے اپنے حواس سے نفع اٹھانے کو سلب کرلیا ہے پس ارشاد ربانی ہے : آیت : لھم قلوب لا یفقھون بھا الاٰہ ( الاعراف : 179) ( ان کے دل ( تو) ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ان سے) علماء نے اس بارے اختلاف کیا ہے کہ واجبات میں سے پہلا واجب کیا ہے، کیا وہ نظروفکر کرنا اور استدلال کرنا ہے یا وہ ایمان ہے جو دل میں حاصل ہونے والی تصدیق ہے اور اس کے صحیح ہونے کے لیے معرفت شرط نہیں ؟ تو قاضی وغیرہ نے یہ کہ ہے کہ اول الواجبات نظرو فکر اور استدلال کرنا ہے، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو بداہۃ نہیں جانا جاسکتا، بلکہ اس کا علم نظروفکر کرنے اور ان دلائل سے استدلال کرنے سے ہوتا ہے جو اس نے اس نے اپنی معرفت اور پہچان کے لیے قائم کیے ہیں۔ یہی موقف امام بخاری (رح) نے اپنایا ہے اس طرح کہ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بات باندھا ہے ( باب العلم قبل القول والعمل لقول اللہ عزوجل : فاعلم انہ لا الہ الا اللہ) قاضی نے کہا ہے : جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بارے نہیں جانتا تو وہ جاہل ہے اور جو اس کے بارے جاہل ہے وہ کافر ہے۔ ابن رشد نے اپنے مقدمات میں کہا ہے : یہ بین نہیں ہے، کیونکہ ایمان اس یقین کے ساتھ صحیح ہوتا ہے جو اسے حاصل ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تقلید کے سبب ہدایت عطا فرمائی اور پہلے مرحلہ میں اعتبار اس کا ہے جس کے اعتبار کی طرف اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی آیت کے رہنمائی فرمائی۔ فرمایا : جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اول الواجبات نظرواستدلال ہے ان کے خلاف علامہ الباجی (رح) نے اس سے استدلال کیا ہے کہ تمام زمانوں میں عوام الناس اور مقلدین کا نام مومنین رکھنے پر تمام مسلمانوں کا اجماع رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا : اگر وہ صحیح ہے جس کی طرف نظر و استدلال والے لوگ گئے ہیں تو پھر مومن صرف اسے ہی کہا جائے جس کے پاس نظر و استدلال کے سبب علم ہو۔ اور میزید یہ کہا ہے : اگر ایمان صحیح نہ مگر نظر و استدلال کے بعد تو پھر کفار کے لیے جائز ہے کہ جب مسلمان ان پر غالب آئیں تو وہ ان سے کہیں : تمہارے لیے ہمیں قتل کرنا حلال نہیں ہے، کیونکہ تمہارے دین میں سے یہ ہے کہ ایمان صحیح نہیں ہوتا مگر نظر وفکر اور استدلال کے بعد، پس تم ہمیں مہلت دو تاکہ ہم غور وفکر کریں اور دلائل حاصل کرسکیں۔ علامہ نے فرمایا : یہ شے انہیں ان کے کفر پر ہی چھوڑنے کی طرف پہنچانے والی ہے اور یہ کہ انہیں قتل نہ کیا جائے یہاں تک کہ وہ غوروفکر کرلیں اور استدلال کرلیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس باب میں یہی صحیح ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کا قتال کروں یہاں تک کہ وہ کہنے لگیں : لا الہ الا اللہ اور وہ ایمان لائیں میرے ساتھ اور اس دین کے ساتھ جو میں لے کر آیا ہوں، پس جب انہوں نے ایسا کرلیا توا نہوں نے اپنے خون اورا پنے اموال مجھ سے محفوظ کرلیے سوائے حق کے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے “۔ ابن منذرنے ” کتاب الاشراف “ میں ایمان کامل کی صفات ذکر کی ہیں اہل علم میں سے جو کوئی اسے یاد رکھتا ہے ان تمام کا اس پر اجماع ہے کہ کافر جب کہے اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اور یہ کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو لے کر آئے وہ حق ہے اور میں ہر اس دین سے اظہار برات کرتا ہوں جو دین اسلام کے مخالف ہے، درآنحالیکہ وہ بالغ اور صحیح العقل ہو بلاشبہ وہ مسلمان ہے۔ اور اگر اس کے بعد وہ رجوع کرلے اور کفر ظاہر کرے تو وہ مرتد ہوگا اور اس پر وہ سزا واجب ہوگی جو مرتد پر واجب ہوتی ہے۔ ابوحفص زنجانی نے کہا ہے : ہمارے شیخ قاضی ابو جعفر احمد بن محمد سمنانی (رح) کہتے ہیں : اول الواجبات اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ ﷺ اور اس دین کے ساتھ ایمان لانا ہے جو آپ ﷺ لے کر آئے، بعد ازاں نظر و استدلال دونوں اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچانے والے ہیں، پس آپ کے نزدیک ایمان باللہ کا وجوب معرفت باللہ پر مقدم ہے۔ فرمایا : یہ صواب کے زیادہ قریب ہے اور مخلوق کے لیے زیادہ مفید ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر معرفت اور نظرواستدلال کی حقیقت کو جانتے ہی نہیں پس اگر ہم کہیں : اول الوجبات اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے تو یہ یقینا ایک جم غفیر اور کثیر تعداد کی تکفیر تک پہنچا دے گا اور یہ کہ پھر اکا دکا لوگوں کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا اور یہ انتہائی بعید ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یقین دلایا ہے کہ اہل جنت میں سب سے زیادہ آپ کی امت ہوگی۔ اور یہ کہ تمام کے تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیمات کی امتیں ایک صف ہوں گی اور آپ ﷺ کی امت اسی صفیں ہوگی۔ اور یہ اتنا بین اور واضح ہے کہ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ والحمد للہ مسئلہ نمبر 3۔ متکلمین میں سے بعض متاخرین اور متقدمین نے یہ کہا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کو ان طرق سے نہ پہچانا جو انہوں نے معرفت کے طریقے مقرر کیے ہیں اور ان ابحاث سے نہ پہچانا جو انہوں نے تحریر کیے ہیں تو اس کا ایمان صحیح نہیں اور وہ کافر ہے۔ تو اس بنا پر تو اکثر مسلمانوں کی تکفیر لازم آتی ہے اور سب سے اول جس سے تکفیر کی ابتدا کی جائے گی وہ اس کے اپنے آبائ، اسلاف اور پڑوسی ہوں گے۔ اور بعج کے بارے میں تو یہ کہا گیا ہے کہ اس نے کہا : مجھے اہل نار کی کثرت کے سبب برا بھلا نہ کہہ۔ اوکما قال میں ( مفسر) کہتا ہوں : یہ قول صادر نہیں ہو سکتا مگر اسی سے جو کتاب اللہ اور اپنے نبی ﷺ کی سنت سے جاہل ہو، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو متکلمین کی ایک قلیل سے جماعت پر محصور کردیا ہے اور انہوں نے عام مسلمانون کی تکفری کی مشقت کی ہے۔ یہ اس اعرابی کے قول سے کہاں ثابت ہے جس نے پیشاب کرنے کے لیے اپنی شرمگاہ کو کھولا۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب نے اسے جھڑکا : اللھم ارحمنی ومحمدا ولاترحم معنا احدا (اے اللہ ! مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی پر رحم نہ کر) تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لقد حجرت واسعا ( صحیح بخاری، کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 889) ( تحقیق تو نے وسیع (رحمت) کو محدود کردیا ہے) اسے امام بخاری، ترمذی اور دیگر آئمہ نے روایت کیا ہے۔ کیا آپ اس اعرابی کے بارے جانتے ہیں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو دلیل وبرہان اور حجت وبیان کے ساتھ پہچان لیا تھا ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو ہر شے سے وسیع ہے اور اس کی مثل اور کتنے ہوں گے جن کے لیے ایمان کا حکم لگایا گیا، بلکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے تو اس بارے بہت سے لوگوں کے بارے صرف اس پر اکتفا کیا کہ وہ شہادتین پڑھنے کے سبب اسلام لائے، حتی کہ آپ نے اس میں اشارے پر بھی اکتفا کیا۔ کیا تم جانتے نہیں ہو جب آپ نے سوداء کو کہا تھا : ” اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ “۔ اس نے جواب دیا : آسمان میں۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ” میں کون ہوں ؟ “۔ اس نے کہا : آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اعتقھافانھا مومنۃ ( تو اسے آزاد کر دے بلاشبہ یہ مومنہ ہے) یہاں نظرواستدلال تو نہ تھا، بلکہ آپ ﷺ نے پہلے ہی مرحلہ میں ان کے ایمان کا حکم لگا دیا، اگرچہ وہاں نظر ومعرفت سے غفلت تھی۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 4 : امرد ( بےریش نابالغ بچہ) اور عورتوں میں سے حسینوں کے چہروں میں دیکھنا اور غور وفکر کرنا بھی جائز نہیں۔ علامہ ابو الفرج جوزی (رح) نے کہا ہے : ابو طیب طاہر بن عبداللہ طبری نے کہا ہے مجھے اس گروہ کی جانب سے یہ خبر پہنچی ہے جو سماع سنتا ہے کہ وہ امرد کے چہرے کی طرف کثرت سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات اسے زیور اور رنگ دار کپڑوں کے ساتھ آراستہ اور مزین کرے ہیں اور وہ گمان یہ کرتے ہیں کہ وہ اس سے ایمان میں زیادتی کا قصد کرتے ہیں نظروفکر کے ذریعے اور صنعت سے صانع پر استدلال کرتے ہیں۔ یہ خواہش نفس کی پیروی کرنے، عقل کو دھوکہ دینے اور علم کی مخالفت کرنے کی انتہا ہے۔ ابو الفرج نے کہا ہے : امام ابو الوفاء بن عقیل نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے دیکھنا حلال نہیں کیا مگر صرف اس صورت میں جس کی طرف نفس کا میلان نہ ہو، اس میں ہواء وہوس کا حصنہ نہ ہو، بلکہ اس میں ایسی عورت ہو جس میں شہوت کی آمیزش نہ ہو۔ اور نہ اس کے ساتھ لذات کی ملاوٹ ہو، یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کسی عورت کو رسول بنا کر مبعوث نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی کو قاضی، امام اور موذن بنایا، یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ عورت شہوت اور فتنہ کا محل ہے۔ پس جس نے کہا : میں حسین و جمیل صورت سے نصیحت پکڑتا ہوں تو ہم اس کی تکذیب کریں گے۔ اور ہر وہ جس نے اپنے آپ کو ایسی فطرت اور طبیعت کے ساتھ ممتاز کیا جو اسے ہماری طبائع سے نکال دے تو ہم اس کی تکذیب کریں گے، بلاشبہ یہ ان کے لیے شیطان کے دھوکے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ اور بعض حکماء نے کہا ہے : عالم کبیر کی ہر شے کی نظیر عالم صغیر میں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (التین) ( بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ( عقل وشکل کے اعتبار سے) بہترین اعتدال پر) اور میزدی یہ فرمایا : آیت : وفی انفسکم افلا تبصرون ( الذاریات) ( اور تمہارے وجود میں بھی ( نشانیاں ہیں) کیا تمہیں نظر نہیں آتیں) ہم نے وجہ تمثیل سورة الانعام کے اول میں بیان کردی ہے۔ پس صاحب عقل پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات کی طرف دیکھے اور اپنی خلقت میں اس وقت سے غور وفکر کرے جب کہ وہ ٹپکنے والے پانی سے لے کر خلقا سویا کے مقام تک پہنچا، اسے غذائیں مہیا کی جاتی ہیں، نرمی کے ساتھ اس کی تربیت کی جاتی ہے اور انتہائی ملائمت کے ساتھ اس کی حفاظت کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ قوت اور طاقت حاصل کرلیتا ہے اور جوانی وبلوغت کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔ اور جب وہ اس حال میں ہوتا ہے تو پھر کہتا ہے : میں ہی میں ہوں، اور اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ اس پر ایسا زمانہ بھی آیا ہے جب وہ قابل ذکر شے نہ تھا اور عنقریب وہ قبر میں لوٹ جائے گا۔ پس اس پر افسوس ہے اگر یہ تھکا ماندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین تا قولہ القیمۃ تبعثون ( اور بیشک ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے جوہر سے۔ پھر ہم نے رکھا اسے پانی کی بوند بنا کر ایک محفوظ مقام میں۔۔۔ پھر بلاشبہ تمہیں روز قیامت ( قبروں سے) اٹھایا جائے گا) پس وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ بندہ ہے جسے پالا گیا ہے، احکام کا مکلف بنایا گیا ہے، اسے عذاب سے ڈرایا گیا ہے اگر وہ کوتاہی کرے، اسے ثواب کی امید دلائی گئی ہے اگر وہ اطاعت و فرمانبرداری کرے، پس وہ اپنے مولی کی عبادت پر متوجہ رہے ( کیونکہ) اگر وہ اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ ( مولیٰ ) تو اسے دیکھ رہا ہے اور وہ لوگوں سے نہ ڈرے ( کیونکہ) اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس سے ڈرے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی پر تکبر نہ کرے، کیونکہ وہ غلاظت اور میل کچیل سے مرکب ہے، وہ جنت کی طرف جانے والا ہے اگر اس نے اطاعت کی یا پھر آتش جہنم کی طرف جانے والا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ہمارے شیوخ پسند کرتے ہیں کہ آدمی ان حکمت بھرے اشعار میں غوروفکر کرے جو ان علمی اوصاف کے جامع ہیں۔ کیف یزھو من رجیعہ ابد الدھر ضجیعہ فھو منہ والیہ واخوہ ورضیعہ وھو یدعوہ الیہ الحش بصغر فیطیعہ قولہ تعالیٰ : آیت : وما خلق اللہ من شیء یہ اپنے ماقبل پر معطوف ہے، یعنی ان اشیاء میں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہیں۔ آیت : وان عسی ان یکون قد اقترب اجلھم یعنی ان مقررہ مدتوں میں جن کے بارے امید ہے کہ وہ قریب آگئی ہوں۔ یہ کلام محل جر میں ہے اور اپنے ماقبل پر معطوف ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ اس میں اقترب اجل ( مقررہ میعاد کا قریب آنا) سے مراد غزورہ بدر اور غزوہ احد کے دن ہیں۔ آیت : فبای حدیث بعدہ یومنون یعنی وہ قرآن جو حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ لے کر آئے اس کے بغیر کون سا قرآن ہے جس کی وہ تصدیق کریں گے ؟ اور بعض نے کہا ہے : آیت میں ہا ضمیر کا مرجع اجل ہے، معنی یہ ہوگا مقررہ معیاد آنے کے بعد وہ کون سی بات کے ساتھ ایمان لائیں گے جس وقت ایمان کوئی فائدہ نہ دے گا، کیونکہ آخرت دارالتکلیف نہیں ہے۔
Top