Ahsan-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 86
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طا لب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی۔
(من کان یرید الحیوۃ الدنیا وذینتھا) ” جو چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی رونق “ یعنی جس شخص کا بھی ارادہ، دنیاوی زندگی اور اس کی زیب وزینت ہی کے گرد گھومتا ہے، مثلاً عورتوں اور بیٹوں کے حصول کی خواہش، سونے اور چاندی کے خزانوں کی ھرص، نشان زدہ گھوڑوں، مویشیوں اور کھیتیوں کی چاہت، اس نے اپنی رغبت، عمل اور کوشش کو صرف انہی چیزوں پر مرکوز رکھا ہے اور وہ آخرت کے گھر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایسا شخص کافر کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر وہ مومن ہوتا تو اس کا ایمان اسے اس بات سے روک دیتا کہ اس کا تمام ارادہ صرف دنیا پر مرکوز رہے، بلکہ اس کا ایمان اور اس کے نیک اعمال، اس کے ارادہ آخرت ہی کے آثار ہیں۔ مگر یہ کافر بدبخت تو گویا صرف دنیا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے (نوف الیھم اعمالھم فیھا) ” بھگتا دیں گے ہم ان کو ان کے عمل دنیا ہی میں “ یعنی ہم ان کو وہ دنیاوی ثواب عطا کردیتے ہیں جو ان کے لئے لوح محفوظ میں لکھا ہوتا ہے۔ (وھو فیھا لا یبخسون) ” اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔ “ یعنی جو کچھ ان کے لئے مقرر کیا گیا ہوتا ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کو منتہا ہے۔
Top