Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 48
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا١ۚ وَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۠   ۧ
وَ كَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَمْلَيْتُ : میں نے ڈھیل کی لَهَا : ان کو وَهِىَ : اور وہ ظَالِمَةٌ : ظالم ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهَا : میں نے پکڑا انہیں وَاِلَيَّ : اور میری طرف الْمَصِيْر : لوٹ کر آنا
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ڈھیل دی اور وہ ظالم تھیں پھر ہم نے مواخذہ میں پکڑ لیا اور بالآخر سب کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے
کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے ڈھیل دے رکھی تھی جب ہمارا مقررہ وقت آیا تو وہ پکڑی گئیں : 48۔ فرمایا جہاں ہم نے عذاب دینے کے ضابطہ کا اعلان کیا ہے وہاں ہم نے ڈھیل دینے کا بھی اعلان کر رکھا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم کرتے ہی نہ پکڑ لیا جائے بلکہ اس کو اس وقت تک ڈھیل دی جائے جس وقت تک اس کو ڈھیل دیتے رہنا ہمارے قانون میں ہے اب کسی کے جلدی کرنے سے ہم اپنا قانون تو نہیں بدلیں گے کہ فلاں آدمی عذاب کے لئے جلدی مچا رہا ہے لہذا اس کو جلدی عذاب میں مبتلا کر دو اور فلاں آدمی عذاب طلب نہیں کرتا اس لئے اس کو عذاب میں مبتلا ہی نہ کرو بالکل چھوڑ دو ، غور کرو کہ قوم نوح (علیہ السلام) نے سوائے چند معدودے آدمیوں کے نوح (علیہ السلام) کی تعلیم کو نہ مانا اور نوح (علیہ السلام) کو بہت ستایا لیکن جب تک ہمارے قانون کا طے شدہ وقت نہ آیا ہم نے انکو ہلاک نہ کیا بلکہ نوح (علیہ السلام) کو کہا کہ تم اپنا کام کئے جاؤ کوئی مانتا ہے تو مانے نہ نہیں مانتا تو تمہاری بلا سے وہ خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور جو اپنا نقصان کرنے پر تل چکا ہے اس کو آپ ہدایت نہیں دے سکتے لہذا آپ اپنا کام کرتے جائیں جب وقت آئے گا تو ہم ان کو ذرا بھر بھی مہلت نہیں دیں گے اس طرح ایک ایک نبی ورسول کے تذکرہ کو دیکھتے جاؤ تم کو یہی اصول ہمارا دکھائی دے گا اور اب جلدی کرنے والوں کو آخر ہم اپنے قانون کے مطابق ڈھیل کیوں نہ دیں گے ؟ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس اپنے قانون امہال کا ذکر بھی بار بار قرآن کریم میں کیا ہے اور اس کی بیسیوں سے زائد مثالیں بھی پیش کی ہیں اور یہ بھی کہ قرآن کریم نے اس کو زیادہ تر لفظ (اجل) (تکویر) اور (تدریج) سے بیان کیا ہے اور (مہل) کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے ۔ ہم اس کی وضاحت سورة النحل کی آیت 61 میں ‘ سورة الانبیاء کی آیت 21 میں بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں اور سورة المزمل اور الطارق میں انشاء اللہ مزید بیان آئے گا ، اس جگہ لفظ (املیت) کے استعمال ہوا ہے جس کی اصل م ل و ہے ” میں نے ڈھیل دی “ ڈھیل اور مہلت ایک ہی چیز ہے اور اس سے ” املاء “ ہے اور اسی ڈھیل کے لئے لفظ ” مھل “ بھی بیان ہوا ہے جس کی اصل م ہ ل ہے اور اس کے معنی بھی ڈھیل اور مہلت ہی کے ہیں ۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم نے ہمیں وضاحت سے بتایا ہے کہ فطرت کے تمام قوانین اپنی نوعیت میں کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اگر لفظوں میں ان کو تعبیر کرنا چاہیں تو فقط فطرت کے فضل و رحمت ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں تمہیں اور کوئی تعبیر نہیں ملے گی ، اس کے قوانین کا عمل کبھی فوری اور اچانک نہیں ہوتا وہ جو کچھ کرتی ہے آہستہ آہستہ بتدریج کرتی ہے اور اس تدریجی طرز عمل نے دنیا کے لئے مہلت اور ڈھیل کا فائدہ پیدا کردیا ہے یعنی اس کا ہر قانون فرصتوں پر فرصتیں دیتا ہے اور اس کا ہر فعل عفو و درگزر کا دروازہ آخر تک کھلا رکھتا ہے بلاشبہ اس کے قوانین اپنے نفاذ میں اٹل ہیں اور ان میں ردوبدل کا امکان نہیں ہے ۔
Top