Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 25
فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١۫ وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
فَكَيْفَ : سو کیا اِذَا : جب جَمَعْنٰھُمْ : انہیں ہم جمع کرینگے لِيَوْمٍ : اس دن لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَوُفِّيَتْ : پورا پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : حق تلفی نہ ہوگی
لیکن ان کا حال کیا ہوگا جب قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہم انہیں اپنے حضور جمع کریں گے اور ہر جان نے جیسا کچھ کمایا ہے اس کے مطابق اسے پورا پورا بدلہ ملے گا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو گی
نجات کا دارومدار کسی کی وہم پرستی پر نہیں بلکہ اس کے لیے مستقل قانون ہے : 65: ان بدبختوں ، وہم پرستوں اور شامت زدوں کا حال اس روز کیا ہوگا جس روز کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ” یَوْمٌ لَّا رَیْبَ فِیْهِ “ یعنی قیامت کے دن۔ اس طرز سے مقصود محض قیامت کا ذکر کردینا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے وقوع کی قطعیت کو ذہن نشین کرا دینا ہے۔ بڑے تاسف اور افسوس سے کہا جارہا ہے کہ کیا بنے گا ان پر جب ہم انہیں اس روز جمع کریں گے جس روز کا آنا یقینی ہے۔ اس روز تو ہر ایک شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا کہ کسی کو سزا بلا جرم یا زائد از جرم مل جائے یا کسی کی کوئی نیکی بغیر اجر کے چھوٹ جائے۔ ” مَا کَسَبَتْ “ جو کچھ اس نے کمایا ہے یا حاصل کیا ہے خواہ وہ حسنات ہوں یا سیئات ہوں۔ ہاں ! کسی کو اس کے عمل کے برابر دینے کے بعد اس پر انعام کے طور پر زیادہ دے دیا جائے خواہ وہ کتنا ہو یا کسی کو اس کے عمل کے برابر دینے کے بعد اس کے نتیجہ پر لکیر پھیر دی جائے یہ دوسری بات ہے کیونکہ اس کے قانون میں وضاحت موجود ہے کہ انعام بھی دیا جاسکتا ہے اور ” حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ “ کے مطابق ان کے نیک اعمال پر لکیر بھی پھیری جاسکتی ہے جس سے ان کا کیا کرایا سب اکارت ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بات ظلماً نہیں بلکہ عدلاً ہوگی۔
Top