Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
مسلمانو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو
مسلمانوں کو قرب الٰہی حاصل کرنے کی ترغیب اور اچھے اعمال کرنے کا حکم : 111: پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت میں بےباک ہوچکے تھے اور ان کی اس بیباکی کے باعث اللہ اور اسکے رسول سے برسر پیکار جنگ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ انہوں نے مخالفت کیا کی ہے کہ دراصل اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ شروع کردیا اور مخالفت کا ٹھیکہ لے لیا ہے پھر ان احکام الٰہی کے مخالفین کی مختلف سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے اور سخت وعیدیں سنائی گئیں اور آخر کار انکے ایسے اعمال سے توبہ کی رغبت دلا دی گئی تاکہ باغی قسم کے لوگ بغاوت میں بڑھتے ہی نہ چلے جائیں اب زیر نظر آیت میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا جار ہا ہے کہ قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کی اور قرب الٰہی کے حصول کے لئے جو لفظ استعمال کیا گیا وہ چونکہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے بجائے اس کے کہ لوگوں کے سامنے اس کا فرق بیان کیا جاتا کہ عربی لفظ ” وسیلہ “ کے معنی کیا ہیں ؟ اور اردو مستعمل وسیلہ کے معنی کیا ہیں کچھ لوگوں نے اس میں امتیاز نہ کر کے کہیں ٹھوکر کھائی ہے اس سیدھی بات کی بجائے انہوں نے ایسے اختلافات کو اس آیت سے جنم دے لیا کہ اب ان کے مٹنے کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آتی۔ عربی زبان میں وسیلۃ کے معنی قرب کے ہیں اور اہل لغت بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور یہی معنی مراد لیتے ہیں ۔ چناچہ وسیلۃ کے معنی امام راغب نے ” رغبت کے ساتھ کسی چیز کی طرف پہنچانے کے کئے ہیں۔ “ التوصل الی الشی برغبۃ (راغب) اور یہ لفظ ” قربۃ “ کی طرح ہے ” واسل “ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والا ہے اور لسان العرب میں ہے کہ : ” وسل فلاں الی اللہ وسیلۃ “ کے معنی ہیں ایسا کام کیا کہ جس کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل ہوگیا۔ الوسیلۃ القربۃ ( کبیر) تو سلت الیٰ فلاں بکذا بمعنی تقرب الیہ (ابن جریر) الوسیلۃ القربۃ التی یبتغی ان یطلب بھا ( قرطبی) اور قرب کا بہترین ذریعہ احکام الٰہی کی تعمیل ہے ۔ اطلبوالیہ القرب فی الدرجات بالا عمال الصالحۃ ۔ (ابن عباس ؓ جن لوگوں نے وسیلہ کے تحت میں بزرگان دین کی استعانت اور انبیاء و اولیاء کرام سے استغاثہ جائز رکھا ہے انہوں نے دراصل عربی کے وسیلہ بمعنی ذریعہ کا مرادف سمجھ لیا ہے اور پھر اس سے مطلب در مطلب نکالتے ہوئے وہ کہیں کے کہیں پہنچ گئے ہیں اور ایسی ایسی فاحش غلطیاں کی ہیں کہ ان کو بیان کرنے کے لئے دفتردرکار ہیں۔ ہم ایسی ساری بحثوں کو یک قلم ختم کر کے اصل حقیقت کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں اور اشارتاً یہ عرض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں علامہ آلوسی (رح) نے ” روح “ میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ لکھا ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیا جائے اور اس بحث کو سمیٹتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ میت یا غائب شخص سے دعا کرانے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو بھی کوئی شک نہیں اور یہ ایک ایسی بدعت ہے جس کا ارتکاب سلف میں سے کسی نے بھی نہیں کیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت کو اذان سننے یا اذان دینے کے بعد جو دعا سکھائی اس میں رسول اللہ ﷺ نے قرب الٰہی کی طلب بتائی ۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے اذان کے یہ دعا مانگنے کی تاکید فرمائی کہ : اللَّهُمَّ رَبَّ ہَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیلَةَ وَالْفَضِیلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِی وَعَدْتَهُ ۔ (صحیح بخاری) ” اے اللہ ! اور اس اذان کا مل اور صلوٰۃ قائمہ کے رب محمد رسول اللہ ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور ان کو مقام محمود میں جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے مبعوث فرما۔ “ وسیلہ کیا ہے ؟ جنت میں ایک اعلیٰ ترین درجہ ہے چناچہ اس دعا نے اس سارے شرک کی جڑ کاٹ دی جس کی طرف بعض دوست اور بزرگ دعوت دینا دین کا اہم کام سمجھ بیٹھے ہیں اور اس طرح اس شرکیہ عمل کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں لیکن صاحب علم و عمل نے ایسی باتوں میں کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ اس سے بچنے کی تقلین کرتے ہیں۔ ” والوسیلۃ “ کل ما یتقرب بہ ( کشاف) ایمان ، نیک عمل ، عبادات ، پیروی سنت اور گناہوں سے بچنا یہ سب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ “ (ضیا القرآن) ابن جریر نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر یہ نقل کی ہے کہ : تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرو اس کی فرمانبرداری کے کام کر کے اس لئے آیت کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہوا ” اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو بذریعہ ایمان اور عمل صالح۔ “ اہل لغت نے وصیلہ اور وسیلہ کو ایک معنوں میں استعمال کیا ہے جو فرق ہے وہ بالکل معمولی ہے کہ وصیلہ صاد کے ساتھ ہو تو اس کے معنی صرف ملا دینے کے ہیں اور اگر وسیلۃ سین کے ساتھ ہو تو اس کے معنی محبت ورغبت کے ساتھ جوڑنے کے ہیں۔ (لسان العرب ، مفردات) اس طرح لفظ وسیلہ میں محبت ورغبت کا مفہوم شامل ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ وسیلہ کے درجات میں ترقی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر موقوف ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے اتباع سنت سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا کہ : فَاتَّبِعُوْنِیْ۠ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ، اس لئے جتنا کوئی اپنی عبادات ومعاملات ، اخلاص معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع کرے گا اتنا ہی اللہ کی محبت اس کو حاصل ہوگی اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہوجائے گا اور جتنی محبت بڑھے گی اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ ہاں ! یہ بات اپنی جگہ محقق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ بیٹھنا ان کی صحبت سے اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث کا عملی در لینا بھی ایک نیک عمل ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اس طرح وہ بزرگ کوئی وسیلہ نہیں بن جاتے بلکہ وہ اللہ کے دین کی باتوں کی تعلیم دیتے اور ان کے مطابق عملی سبق سکھاتے ہیں اور اس راہ پر انسان کو چلانے کا کام کرتے ہیں جس راہ کو قرآن کریم کی راہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ کی راہ کہا جاتا ہے ۔ اس سے رسمی پیری مریدی کا کوئی تعلق نہیں جو نسلاً بعد نسلِِ عوام کو کھانے کیلئے اور اس کو سیدھی راہ سے ہٹانے کے لئے اختیار کر رکھی ہے جس کا برصغیر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً رواج عام ہے یہ سراسر جہالت اور بےوقوفی ہے جس سے کچھ شاطر لوگوں نے فائدہ حاصل کیا ہے اور اپنی اپنی دکانداریاں چلا رکھی ہیں۔ مختصر یہ کہ قرب الٰہی کی تلاش کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے احکام وحدود کی پوری پوری پابندی کی جائے اور ان کی خلاف ورزی کے نتائج سے ڈرا جائے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ اور وسیلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہی ہے۔ اس وجہ سے کتاب اللہ اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنا ہی اللہ کی قربت کا واسطہ ہے اس طرح اس آیت میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ اور اسکے رسول کی سنت سے بےپرواہ ہو کر دوسروں کا تقرب ڈھونڈھا اور ان کو اپنی نجات و فلاح کا ضامن سمجھے بیٹھے ہیں وہ بڑی غلط امیدوں اور بڑے ہی غلط سہاروں پر جی رہے ہیں ۔ فوز و فلاح کی راہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اللہ سے ڈرو اور اس کا قرب تلاش کرو۔ قرآن کریم میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ جن لوگوں نے نادانی کے باعث اللہ کی قربت کا ذریعہ سمجھ کر فرشتوں ، دلیوں اور بزرگوں کو معبود بناتا ہے وہ خود اللہ کے حضور قرب کلئےساعی و سرگرم عمل ہیں اور اس کے عذاب سے ہر وقت وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ 1ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ کَانَ مَحْذُوْرًا 0057 (الاسراء 17 : 57) ” یہ لوگ جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کے حضور وسیلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں یعنی اس کی بندگی اور اطاعت کرتے ہیں کہ کون اس راہ میں زیادہ قریب ہوتا ہے نیز اس کی رحمت کے متوقع رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ترساں فی الحقیقت تمہارے پروردگار کا عذاب بڑے ہی ڈرنے کی چیز ہے۔ “ مختصر سی یہ بات کبھی نہ بھولو کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فاصلہ مطلق نہیں جس کو طے کرنے کے لئے کسی واسطہ ووسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے مکان کی چھت پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں اور حکام تک پہنچنے کے لئے اردلی اور چپڑاسی جن لوگوں نے اس طرح کی مثالیں گھڑ گھڑ کر اور لوگوں کے سامنے پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ خود اندھے ، بہرے اور گونگے ہیں وہ کسی کو راہ کیا بتائیں گے۔ زیر نظر آیت میں الفاظ : ” وَ جَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ کے بھی استعمال ہوئے ہیں ان الفاظ کا مطلب و مفہوم بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ” وسیلۃ “ کی طرح ” جہاد “ کو بھی لوگوں نے صرف اردو کے جہاد کے مفہوم میں ہی لے رکھا ہے اور اردو میں جہاد ایک دینی اصطلاح کی حیثیت سے صرف قتال فی سبیل اللہ کے معنوں میں مخصوص ہوچکا ہے حالانکہ عربی میں یہ حصر وتحدید صحیح نہیں ہے ۔ عربی میں جہاد کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس کا عام استعمال ہے ۔ چناچہ ہر سخت کوشش جو کسی بھی دینی غرض سے کی جائے خاص کردشمنان دین کے مقابلہ میں اصطلاح قرآنی میں جہاد کا درجہ رکھتی ہے اور جہاد جس طرح میدان جنگ میں تیغ و تفنگ سے ہو سکتا ہے اسی طرح جہاد مال و دولت سے اور قلم و زبان سے بھی ہو سکتا ہے اور اسی طرح فلاح کا لفظ بھی دینوی ، اخروی ، مادی اور روحانی ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں پر محیط ہے اور پھر سب سے بڑی کامیابی رضائے الٰہی کا حصول ہے اور لعل کے معنی بلاشبہ ” شاید کہ “ کے ہیں لیکن جب اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کی زبان اقدس سے ہوتا ہے تو اس کے معنی میں مفہوم شک و احتمال کا باقی نہیں رہتا بلکہ اس کے معنی میں یقین پیدا ہوجاتا ہے اس لئے ترجمہ میں اس کے احتمال کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ عزم و جزم کا اظہار کیا ہے ” کہ اس کی راہ میں جدوجہد کروتا کہ تمہیں کا میابی حاصل ہو۔ “
Top