Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے یعنی حضرت یونس کو بھی جب کہ وہ اپنی قوم سے خفا ہو کر چلے گئے تھے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم ان پر کوئی داروگیر نہ کریں گے پھر انہوں نے تہ در تہ اندھیروں میں پکارا کہ اے میرے رب تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے ہر نقص وعیب اور ہر شائبہ شرک سے بیشک میں ہی ہوں قصور واروں میں سے2
113 مچھلی والے یعنی حضرت یونس کے قصے کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ذو النون یعنی مچھلی والے کو بھی یاد کرو جبکہ وہ غصے ہو کر چلا گیا اور اس نے سوچا کہ ہم اس پر کوئی دار و گیر نہیں کریں گے اور ان کے فیصلے پر ان کی کوئی باز پرس نہ کریں گے اور ان سے کسی تنگی کا معاملہ نہ کریں گے " ای لن نضیق علیہ بالعقوبۃ " (ابن کثیر، قرطبی، خازن، کبیر، محاسن التاویل اور صفوۃ وغیرہ ۔ کما روی ذالک عن ابن عباس) ۔ یعنی { نقدر } یہاں پر " قدرت " سے نہیں " قدر " بمعنیٰ تنگی سے ماخوذ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی { وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ } میں ہے " ای ضیق علیہ فیہ " کیونکہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی قدرت کی نفی کا عقیدہ رکھنا تو کفر ہے۔ وہ آنجناب سے کس طرح متصور ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف مچھلی والے یعنی حضرت یونس جب اپنی قوم سے ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے اور یہ سمجھا کہ ہم اس پر کوئی باز پرس اور دار و گیر نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں وہ مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گیے۔ اسی لیے حضرت خاتم الانبیاء کو صبر کا حکم دیا گیا اور آپ کو تلقین فرمائی گئی کہ " مچھلی والے کی طرح نہیں ہوجانا "۔ (القلم :48) ۔ یعنی ان کی طرح بےصبری کا مظاہرہ نہیں کرنا ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 114 حضرت یونس نے بھی اللہ ہی کو پکارا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے تہ در تہ اندھیروں کے اندر پکارا کہ [ اے میرے رب ] تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے۔ بیشک میں قصورواروں میں سے ہوں۔ سو حضرات انبیاء و رسل کا مشکل کشا اور حاجت روا بھی اللہ ہے۔ سو اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ حضرات انبیاء و رسل کا حاجت روا و مشکل کشا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے حضرت یونس نے بھی تہ در تہ اندھیروں کے اندر اپنے رب ہی کو پکارا۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔ سو ان تہ در تہ اندھیروں کے اندر سے اٹھنے والی آواز کو سننا بھی اسی وحدہ لا شریک کا کام اور اسی کی شان ہے۔ پس کس قدر غلط اور گمراہ کن عقیدہ ہے ان جاہلوں کا جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہماری نہیں سنتا جب تک کہ ہم کسی اور کا اس کے حضور وسیلہ نہ پکڑیں اور اس غلط نظریے کی بنا پر ایسے لوگ طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور اسی طرح بڑے ہی گمراہ ہیں وہ لوگ جو مشکلات میں اللہ کی بجائے اوروں کو پکارتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ حضرات انبیاء و رسل بھی اپنی حاجات اور مشکلات میں اسی وحدہ لا شریک کو پکارتے ہیں ۔ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ کہ سب کا حاجت روا و مشکل کشا وہی وحدہ لا شریک ہے۔ سب اسی کے محتاج ہیں اور براہ راست اسی کو پکارتے ہیں۔ اور اسی کا درس ہر مومن کو دیا گیا ہے۔ اور وہ اپنی ہر نماز میں ۔ { ایاک نعبد وایاک نستعین } ۔ کے کلمات کریمہ سے براہ راست اس کے حضور اپنی عرض والتجاء پیش کرتا ہے تو پھر بیچ میں یہ وسیلے اور واسطے کہاں سے آگئے ؟ ۔ اللہ تعالیٰ فکر و عمل ہر اعتبار سے راہ حق و ہدایت پر رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top