Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 4
وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِۙ
وَّالْبَيْتِ : اور قسم ہے گھر کی الْمَعْمُوْرِ : آباد
اور بیت معمور (کے رب ) کی
اور قسم ہے (بیت محمور) کے رب کی (والبینت المعمور) 4 ؎ (والبیت المعمور) کیا ہے ؟ کہا گیا ہے کہ آسمان پر خواہ وہ تیسرا آسمان ہے ‘ چھٹا آسمان ہے یا ساتواں آسمان ہے کہ اس آسمان پر بیت اللہ کے محاذ پر فرشتوں کے لئے ایک عبادت گاہ تعمیر ہے جس میں ایک نماز میں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور ایک بار جو اس میں داخل ہوتے ہیں ان کو دوبارہ داخل ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ اسی کا نام (البیت المعمور) ہے۔ لغت میں اور کتب تفاسیر میں اس کو ” بیعت معمور “ اور کہیں ” بیعت المعمور “ اور کہیں قرآن کریم کے بیان کے مطابق (البیت المعمور) لکھا گیا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ عروۃ الوثقیٰ کے لئے العروۃ الوثقیٰ ہی کو صحیح اور عروۃ الوثقیٰ کو غلط کہنے والوں کی نظر پڑی ہے یا نہیں اور وہ اس میں کیا صحیح اور کیا غلط کہیں گے ؟ اس طرح تحریر کرنے والوں کو معلوم نہ ہوا یا وہ گرائمر سے واقف نہ تھے یا یہ کتابت کی غلطی ہے اور مصح حضرات نے اس طرف توجہ نہیں دی یا اس طرح تحریر کرنے والوں کے پیش نظر کیا تھا ہم نے محض مقتدین ہی کی تنقید کے لئے اس کا ذکر کیا ہے اور صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جن لوگوں کو گرائمر کا ہیضہ ہوتا ہے وہ اس طرح کی الٹی سیدھی کرتے رہتے ہیں اور اپنے علم کی نمود کی بنیاد ایسی ہی باتوں کو بناتے ہیں کہیں ابو الاعلیٰ پر اور کہیں غلام اللہ پر اور کہیں غزوہ الوثقیٰ پر ان کو اعتراض سوجھتا ہے تو ان میں میں میکھ نکال کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ بہرحال بات ( بیت معمور) کی ہو رہی ہے اور مفسرین نے بھی اس میں بہت طول کلامی سے کام لی ا ہے۔ ہم نے صرف ماحصل بیان کیا ہے اور چونکہ گزشتہ آیتوں میں ہم نے قرآن کریم ہی کو ترجیح دی ہے اس لئے ہم اس جگہ بھی بیت اللہ ہی کو مراد لیتے ہیں کیونکہ اس کو قرآن کریم میں دوسری جگہ (بیعت العتیق) اور (بیت الحرام) یا صحیح تلفظ سے (البیت العتیق) اور (البیت الحرام) مراد لیا ہے اور یہی (البیت المعمور) یہی ہے۔ بہت پرانا اور پہلا گھر اور بہت حرمت والا گھر اور بہت ہی آباد گھر بیت اللہ یعنی کعبتہ اللہ ہی ہے اور جب تک اس دنیا کا نظام قائم ہے بحمد اللہ اس کا پہلا گھر ہونا ‘ حرمت والا گھر ہونا اور آباد گھر ہونا تسلیم کیا جائے گا اور جب اس دنیا کا نظام درہم برہم کردیا گیا تو عین ممکن ہے کہ اس کے محاذ پر آسمان ہی پر کوئی گھر آباد کر دیاجائے جو زیادہ عبادت گزاروں کی عبادت گاہ قرار پائے۔ لیکن دوسرے سیاروں میں بھی ایسے گھر آباد ہوں اور وہاں کی آبادی ان سے یہی عقیدت رکھتی ہو تو یہ بات بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ دوسرے سیاروں میں آبادی کا پایا جانا اگرچہ اس وقت تک صحیح روشنی میں نہیں آیا تاہم عین ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں کوئی اس طرح کی بات شہادت پیش کر دے لیکن اس سے جو انکشافات ہوں گے ان سے یہی لازم آئے گا کہ جس طرح بیت اللہ دنیا والوں کے لئے عبادت کا پہلا گھر ہے اسی طرح دوسرے سیارگان کے رہنے والوں کے لئے بھی کوئی عبادت گاہ بطور پہلا گھر موجود ہو۔ اگر آپ آسمان والے (البیت المعمور) کی وضاحت کو دیکھنا چاہیں تو فتح الباری ج 6 ص 220 طبع مصر اور معالم التنزیل امام بغوی ج 5 ص 13 طبع مصر 1332 ھ ملاحطہ کریں اور اگر ہمارے خیال سے متفق ہیں تو بیت اللہ کو اپنے عمرہ رمضان یا حج کے موقع پر دیکھنے کی کوشش کریں اور اس کی آبادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں کیونکہ یہ مشاہدہ کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
Top