Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 15
فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ١ؕ هِیَ مَوْلٰىكُمْ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
فَالْيَوْمَ : تو آج لَا يُؤْخَذُ : نہ لیا جائے گا مِنْكُمْ : تم سے فِدْيَةٌ : کوئی فدیہ وَّلَا مِنَ الَّذِيْنَ : اور نہ ان لوگوں سے كَفَرُوْا ۭ : جنہوں نے کفر کیا مَاْوٰىكُمُ النَّارُ ۭ : ٹھکانہ تمہارا آگ ہے هِىَ : وہ مَوْلٰىكُمْ ۭ : دوست ہے تمہاری وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ : اور بدترین انجام۔ ٹھکانہ
پس آج کے دن نہ تم سے کوئی فدیہ قبول ہوگا اور نہ دوسرے سارے منکروں سے ، تم سب کا گھر دوزخ ہے وہی (دوزخ) تمہاری رفیق ہے اور (پھرنے کی) وہ بہت ہی بری جگہ ہے
قیامت کا دن ہی ایسا دن ہے کہ اس میں کسی سے بدلہ نہیں لیا جائے گا 15 ؎ یہ گزشتہ آیت کی مزید وضاحت ہے جس میں آرزوئوں کے سہارے زندگی بسر کرنے والوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ آرزو ایک ایسی چیز ہے جو دنیا میں بھی بہت کم ہیں کسی کو پوری ہوتی ہے کیونکہ اگر کسی کی ایک آرزو پوری ہو تو دس ایک کی جگہ پیدا ہوجاتی ہیں پھر ان کے پورا ہونے کا سوال ہی آخر کیونکر پیدا ہو سکتا ہے اس لیے قرآن کریم ایسے مقامات پر پہنچ کر ایک بیماری کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے اور پر سے کاٹ دینے کی نہیں ۔ غور کرو کہ زیر نظر آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ آخرت میں فدیہ دینے کے لیے کسی شخص کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔ حالانکہ اگر وہ بات کہتا تو بھی لاریب وہ صحیح اور درست ہوتی لیکن اس نے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے فرمایا کہ اچھی طرح یاد رکھو کہ آخرت میں کسی سے کسی طرح کا فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اس لیے اگر تم میں سے کسی شخص نے بھی اس طرح کی کوئی آرزو اختیار کرلی تو وہ بےفائدہ ہوگی ۔ پھر کسی سے بھی فدیہ قبول نہ کرنے کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی کہ منافقین جو ظاہری طور پر ایمان لانے کے مدعی ہیں وہ بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان کو اس طرح کی منافقت کا ایمان کچھ نقصان تو دے سکتا ہے لیکن فائدہ ہرگز نہیں دے سکتا اور انجام کے لحاظ سے ان کا انجام کفر ہی کے ساتھ ہوگا اور اس طرح ان کی ظاہر داری کا ایمان ان کے کچھ کام نہیں آئے گا اور اس طرح کے دونوں گروہوں کا حشر ایک ساتھ ہوگا اور دونوں کو برابری کے طور پر دوزخ میں داخل کردیا جائے گا اور بعض جگہ اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ منافقوں کو نچلے در کہ میں گرایا جائے اور کافر ان کے اوپر والے در کہ میں ہوں گے۔ وہاں پہنچ کر جس چیز سے تمہارا واسطہ پڑے گا اور جو چیز تمہاری رفاقت میں ہوگی وہ آگ ہی آگ ہوگی اور آگ کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا اور پھر فرمایا کہ یہ بات تم کو معلوم ہی ہے کہ آگ کیسا ٹھکانہ ہے ؟ ظاہر ہے کہ سارے ٹھکانوں سے بڑا ٹھکانہ یہی ہے معلوم ہوگیا کہ مولی علی ؓ کہنے والے کی جو آرزو ہے وہ سب کو معلوم ہے لیکن لاریب یہ آرزو ان کی کبھی پوری ہونے والی نہیں ، ہاں ! ان کی آرزو کے بدلہ میں ان کو یقینا آگ ہی میسر آئے گی اس لیے کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے تو ایک اور صرف ایک ہی مولا ہے اور ان کے لیے تو یہی ہدایت ہے کہ تم لوگ سمجھ لو اور جان لو کہ بل اللہ مولا کم و ھو خیر الناصرین
Top